ہم ہمیشہ 1960ءکی دہائی کو پاکستان کی تاریخ کا شاندار ترین دور کہتے ہیں‘ وزیراعظم عمران خان بھی اپنی ہر تقریر میں چھٹی دہائی کا حوالہ دیتے ہیں‘ یہ جمعہ 4جنوری کو ترکی میں بھی 1960ءکی دہائی کا ریفرنس دے رہے تھے لیکن یہ اور پاکستان کا نوحہ پڑھنے والے زیادہ تر لوگ یہ بھول جاتے ہیںاس سنہری دورکے آرکی ٹیکٹ کون تھے اور ہم نے اس زمانے میں کیوں ترقی کی ؟ ہم نے جس دن ان سوالوں کا جواب کھودلیا اس دن دو پشتون افسروں کے نام اور چہرے بھی ہمارے سامنے آ جائیں گے اور ہم اس سنہرے دور کے ان دو اصولوں تک بھی پہنچ جائیں گے جن کی مددسے پاکستان جنوبی ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن گیا تھا اور وہ دو اصول بعد ازاں جاپان‘ ملائیشیا‘ سنگاپور‘ کوریا اور آخر میں چین نے پاکستان سے امپورٹ کئے اور ہم سے بھی آگے نکل گئے۔
پہلے افسر غلام فاروق خان تھے‘ یہ اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھتے تھے‘ خوشحال خان خٹک کے خاندان سے تھے‘ والد میر اسلم خان خٹک انگریز کے زمانے میں ناگ پور شفٹ ہو گئے‘ ٹھیکیداری کی اور کروڑوں روپے کمائے‘ غلام فاروق خان 1899ءمیں بنگال میں پیدا ہوئے‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 1921ءمیں ریلوے میں اسسٹنٹ ٹریفک سپرنٹنڈنٹ بھرتی ہو گئے‘ وہ ترقی کرتے کرتے 1946ءمیں ریلوے کے پہلے مسلمان جنرل منیجر بن گئے‘ 1948ءمیں پاکستان آئے اور قائداعظم نے انہیں منسٹری آف انڈسٹریز کا سیکرٹری لگا دیا اور اس کے بعد غلام فاروق خان نے کمال کر دیا‘
آپ آج پاکستان کے کسی بھی بڑے ادارے کی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں آپ کو اس کے پیندے میں صرف ایک نام ملے گا اور وہ نام ہوگا غلام فاروق خان‘ وہ کتنے بڑے انسان تھے آپ چند مثالیں ملاحظہ کیجئے‘ غلام فاروق خان نے پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن بنائی اور پاکستان کے کرنسی نوٹ چھپنا شروع ہو گئے‘ جنوبی ایشیاءکے تمام ملکوں نے نوٹ چھاپنے کا یہ طریقہ پاکستان سے امپورٹ کیا‘ 1949ءمیں کاٹن اینڈ جیوٹ بورڈ بنایا‘ وہ بورڈ کے پہلے چیئرمین تھے‘ بورڈ نے مغربی پاکستان میں کاٹن اور مشرقی پاکستان میں پٹ سن کو باقاعدہ انڈسٹری بنایا‘
ہماری میجر ایکسپورٹ آج بھی کاٹن اور بنگلہ دیش کی جیوٹ ہے‘ ان دونوں کے پیچھے اس بزرگ خٹک کا ہاتھ تھا‘ غلام فاروق نے قدرتی گیس کی کمپنی بنائی اور کمپنی نے پاکستان میں گیس کی دریافت شروع کر دی‘ سوئی سدرن ہو یا پھرسوئی ناردرن ہو یہ دونوں غلام فاروق کے برین چائلڈ تھے‘ کراچی شپ یارڈ بھی ان کا کارنامہ تھا‘ لی کو آن یو نے سنگا پور شپ یارڈ اس کو دیکھ کر بنایا تھا‘ قیام پاکستان سے قبل مغربی اور مشرقی ملک کے دونوں حصوں کی انڈسٹری ہندو اور سکھ صنعت کاروں کے ہاتھ میں تھی‘
یہ لوگ بھارت شفٹ ہوئے تو صنعت اور تجارت دونوں کا بھٹہ بیٹھ گیا‘ غلام فاروق نے اس مسئلے کے حل کےلئے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کمپنی (پی آئی ڈی سی) بنائی‘ کمپنی نے سرکاری رقم سے مختلف صنعتیں لگائیں‘ یہ صنعتیں چل پڑیں تو یہ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دی گئیں‘ ملک میں پہلا سیمنٹ پلانٹ غلام فاروق نے لگوایا تھا‘ ملک میں آج بھی ایوب خان دور کے 22 بڑے کاروباری گروپوں کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ یہ گروپس پی آئی ڈی سی سے پیدا ہوئے تھے‘
یہ تصور بعد ازاں پاکستان سے ملائیشیا‘ سنگاپور‘ جنوبی کوریا اور چین گیا‘ ان چاروں ملکوں نے حکومت کی نگرانی میں مختلف صنعتیں لگوانا شروع کر دیں‘ پاکستان میں ایک ہی اسلحہ ساز فیکٹری ہے‘ پاکستان آرڈیننس فیکٹری‘ یہ بھی غلام فاروق خان نے 1958ءمیں بنائی تھی اور وہ اس کے پہلے اور آخری سویلین چیئرمین تھے‘ وہ واپڈا کے بانی بھی تھے‘ خان صاحب نے 1959ءمیں واپڈا بنایا اور منگلہ اور تربیلا ملک کے دونوں بڑے ڈیم بنوائے‘ انویسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان بھی ان کا برین چائلڈ تھا‘
وہ 1983ءمیں اس کے چیئرمین بھی رہے‘ یہ آئیڈیا بھی بعد ازاں گیارہ ملکوں میں کاپی ہوا‘ وہ مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے‘ ایوب خان کے دور میں وزیر تجارت بھی رہے‘ 1973ءمیں قومی اسمبلی کے رکن بھی بنے اوروہ دوبار سینٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا بزنس گروپ غلام فاروق گروپ بھی بنایا‘ اس گروپ نے چراٹ سیمنٹ پلانٹ‘ میر پور خاص شوگر مل اور ائیرکنڈیشنڈ پلانٹ بھی بنایا‘ پیپر مل‘ سی این جی پلانٹس اور ہائیڈروپاور پلانٹس بھی لگائے‘
غلام فاروق خان کا انتقال 1992ءمیں ہوا‘ آپ ملاحظہ کیجئے وہ کیسے شاندار انسان تھے جبکہ پاکستان کے دوسرے بڑے محسن پشتون بیورو کریٹ غلام اسحاق خان تھے‘ وہ 1915ءمیں اسماعیل خیل میں پیدا ہوئے اور 1941ءمیں انڈین سول سروس جوائن کر لی‘ صدر ایوب خان نے 1961ءمیں انہیں غلام فاروق خان کی سفارش پر واپڈا کا چیئرمین لگا دیا‘ یہ اس کے بعد فنانس سیکرٹری بھی رہے‘ گورنر سٹیٹ بینک بھی‘ ڈیفنس سیکرٹری بھی‘ چیئرمین سینٹ بھی اور صدر پاکستان بھی‘ یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے نگران بھی تھے‘ پاکستان اگر آج ایٹمی طاقت ہے تو اس میں سب سے بڑا ہاتھ غلام اسحاق خان کا تھا۔
آپ ان دونوں حضرات کا پروفائل اور کارنامے دیکھئے اور اس کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجئے کیا ہم ان دونوں حضرات کو 1960ءکے سنہری دور سے الگ کر سکتے ہیں؟ کیا پاکستان ان لوگوں کے وژن اور کوششوں کے بغیر ایشیاءکا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن سکتا تھا؟ جی نہیں! ہمیں ان لوگوں کی کوششوں اور وژن دونوں کا اعتراف کرنا ہوگا لیکن یہ اعتراف کافی نہیں ہوگا‘ ہمیں یہ بھی جاننا ہوگایہ تمام کارنامے ان دوبیوروکریٹس نے کیسے سرانجام دیئے؟
اس کے پیچھے صرف دو اصول کارفرما تھے‘ پہلا اصول ٹرسٹ یعنی اعتماد تھا‘ حکومت نے ان دونوں بیورو کریٹس کو پورا اعتماد دیا‘ یہ کسی بھی وقت کوئی بھی فیصلہ کر سکتے تھے اور کوئی ان سے وجہ پوچھتا تھا اور نہ حساب مانگتا تھا‘ پاکستان نے جب منگلا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تو غلام فاروق امریکا گئے اور ٹینڈر کے بغیر تیسری امریکی کمپنی کو دنیا کے سب سے بڑے سول ورکس پراجیکٹ کا ٹھیکہ دے آئے اور کسی نے ان سے نہیں پوچھا آپ نے یہ ٹھیکہ پہلی دو بڑی کمپنیوں کو کیوں نہیں دیا
اور آپ نے ڈیم سے پہلے منگلا میں ائیرپورٹ اور ورکروں کی کالونی کیوں بنوائی اور آپ سرکاری خزانے سے فیکٹریاں لگا کر سیٹھوں کے حوالے کیوں کر رہے ہیں اور ہمیں جب روس مفت گیس دینے کےلئے تیار ہے تو آپ گیس کی تلاش کےلئے کروڑوں روپے کیوں خرچ کر رہے ہیں؟وغیرہ وغیرہ‘حکومت نے غلام فاروق اور غلام اسحاق خان کو اعتماد اس لئے دیا تھا کہ ملک میں اس وقت نیب‘ اینٹی کرپشن‘ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور محتسب اعلیٰ جیسے ادارے نہیں تھے
چنانچہ وہ لوگ آل ان آل تھے اور وہ 1960ءکی دہائی میں اسلحہ ساز فیکٹری‘ دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم اور پاکستان جیسے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا سوچ بھی سکتے تھے اور فیصلہ بھی کر سکتے تھے‘ مجھے یقین ہے اگر اس وقت بھی سوموٹو نوٹس ہو رہے ہوتے یا نیب فنکشنل ہوتا تو جہاں ہم آج بیٹھے ہیں ہم 1960ءمیں وہاں ہوتے‘ پاکستان میں آج کوئی ڈیم ہوتا اور نہ ہم ایٹمی طاقت ہوتے اور دوسرا اصول ”ملک میرا کل اثاثہ ہے“ جیسی سوچ تھی‘ وہ لوگ ملک کےلئے کاربن پنسل بھی خریدتے تھے تو یہ سوچ کر خریدتے تھے یہ رقم میں نے دینی ہے اور یہ پنسل میرے بچوں نے استعمال کرنی ہے
چنانچہ وہ لوگ ہر ادارہ اس نیت کے ساتھ بناتے رہے جیسے لوگ اپنا گھر بناتے ہیں لہٰذا ملک کے تمام ادارے نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ دوسرے ملکوں نے بھی ان کو کاپی کیا‘ ہمیں آج ماننا ہوگا ملک کو بنانا اور چلانا یہ دونوں ذمہ داریاںبہرحال بیورو کریٹس کے ہاتھ میں ہوتی ہیں‘ یہ لوگ ڈرائیور کی طرح ہوتے ہیں‘ ہم اگر دس کروڑ روپے کی گاڑی اناڑی ڈرائیور کے حوالے کر دیں گے یاپھر ہم اس پر اعتماد نہیں کریں گے تو پھر ہم اپنی گاڑی اور اپنی جان دونوں سے محروم ہو جائیں گے اور ہمارے ساتھ اس وقت یہی ہو رہا ہے‘
ہم نے پورے سسٹم کو پروسیجر سے باندھ دیا ہے چنانچہ فائلوں کا انبار لگ رہا ہے لیکن کام ایک انچ نہیں ہو رہا‘آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے موٹروے سے لے کر میٹروز اور بجلی کے کارخانوں تک ملک کی تمام ترقیاتی سکیموں کا جائزہ لے لیں آپ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے حکومتیں اگر پروسیجرز کو بائی پاس نہ کرتیں تو یہ منصوبے کبھی مکمل نہ ہوتے‘ میاں شہباز شریف نے تین سال میں پنجاب میں پانچ ہزار میگاواٹ کے چار پلانٹس لگائے‘
یہ کیسے ممکن ہوا اور دوسرے صوبے یہ کیوں نہیں کر سکے؟ وجہ پروسیجر تھا‘ میاں شہباز شریف نے پروسیجرز کو بائی پاس کر کے یہ کام مکمل کیا جبکہ دوسرے صوبے آج تک پروسیجرز میں پھنسے ہوئے ہیں‘ یہ اربوں روپے ضائع کر کے بھی میٹرو بناپا رہے ہیں‘ پاور پلانٹس لگا پا رہے ہیں اور نہ نئے ادارے تخلیق کر پا رہے ہیں‘ہماری وفاقی حکومت ساڑھے چار ماہ میں کوئی ایک فیصلہ نہیں کر سکی‘ پنجاب کا سسٹم مکمل طور پر بیٹھ گیا ہے‘کیوں؟آپ نے سوچا
اس کی وجہ پروسیجر اور خوف ہے‘ بیوروکریٹس خوف اور پروسیجر کی وجہ سے کام نہیں کر رہے چنانچہ سسٹم منجمد ہو کر رہ گیا ہے‘میاں شہباز شریف نے دو سال میں پی کے ایل آئی بنا دیا تھا لیکن پنجاب کی پوری حکومت سپریم کورٹ کے شدید دباﺅ کے باوجود ایک آپریشن تھیٹر نہیں چلا پا رہی‘ یہ آپریشن تھیٹر چلے گا بھی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے حشر کے بعد کوئی بیورو کریٹ پی کے ایل آئی کی کسی سمری اور کسی آرڈر پر دستخط کرنے کےلئے تیار نہیں‘ ہم اگر ملک اور کام دونوں چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں نیب‘ اینٹی کرپشن‘ محتسب اعلیٰ اور سوموٹو نوٹس کے بارے میں کوئی نہ کوئی پالیسی بنانی پڑے گی‘
ہمیں سسٹم کو سیدھا کرنا پڑے گااور ہمیں بیوروکریٹس کو اعتماد بھی دینا ہوگا ورنہ ہماراسرکاری سسٹم مکمل طور پر بیٹھ جائے گا‘آپ لطیفہ ملاحظہ کیجئے وزیراعظم قانوناً کسی دوست ملک سے امداد لے سکتے ہیں اور نہ قرضہ لیکن عمران خان سعودی عرب‘ یو اے ای اور چین سے دھڑا دھڑ قرضے لے رہے ہیں‘ سپریم کورٹ نے جس دن قرضوں پر نوٹس لے لیا یا نیب نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کر دیا اس دن کے بعد کوئی شخص ملک کےلئے قرضہ لینے کی غلطی بھی نہیں کرے گا چنانچہ آپ خود فیصلہ کیجئے یہ ملک اب کیسے چلے گا؟ہمیں بہرحال لطیفوں کی یہ فیکٹری بند کرنا ہو گی‘ ہمیں 1960ءکی دہائی میں واپس جانا ہوگا۔