معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں

9  ‬‮نومبر‬‮  2018

میرے ایک دوست ہر قسم کے حالات میں سروائیو کر جاتے ہیں‘ ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال جیسی بھی ہو میں نے انہیں کبھی غیر مطمئن یا پریشان نہیں دیکھا‘ میں نے ان سے ایک دن وجہ پوچھی تو وہ مسکرا کر بولے ”معیشت“ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ”معاشرت معیشت کے بغیر ممکن نہیں‘ آپ اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں تو پھر بڑے سے بڑا مسئلہ بھی مسئلہ نہیں رہتا‘ ہمارا کنبہ سات افراد پر مشتمل ہے‘ ہم تمام لوگ کماتے ہیں چنانچہ ہم ہر قسم کے حالات میں سروائیو کر جاتے ہیں“

وہ رکے اور بولے ”ہماری حکومتیں عوام کو اگر معیشت کی تربیت دے دیں تو یہ ملک مطمئن ممالک کی فہرست میں آ جائے‘ یہ لوگوں کو ٹرینڈ کریں گھر کے ہر فرد کو کمانا چاہیے اور ہنر مند بھی ہونا چاہیے‘ ہمارے سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے“ یہ بظاہر چھوٹی سی ٹپ تھی لیکن اس میں پوری دنیا کی کامیابی چھپی ہے۔پاکستان اس وقت بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ مسائل ناقابل حل ہیں؟ جی نہیں! دنیا کے سو سے زائد ممالک نے یہ مسائل حل کر لئے ہیں‘ ہم بھی اگر کوشش کریں تو ہم بھی ان مسائل سے نکل سکتے ہیں‘ میں آج سے پاکستان کے مسائل اور ان کے حل پر ایک سیریز شروع کر رہا ہوں‘ ہو سکتا ہے ارباب اختیار اس سیریز سے کچھ سیکھ لیں‘ ہم سب سے پہلے معیشت کی طرف آتے ہیں۔معیشت کے بغیر فرد چل سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ لہٰذا معاشی خوشحالی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے‘ خوش حالی کیلئے ہمیں انفرادی اور قومی دونوں سطحوں پر کام کرنا ہوگا‘ میں پہلے انفرادی حل تجویز کرتا ہوں۔آپ یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک کو سٹڈی کر لیجئے‘ وہاں والدین اس وقت تک بچے کے نان نفقے کے ذمہ دار ہوتے ہیں جب تک اس کی جیب میں شناختی کارڈ نہیں آ جاتا‘ امریکا اور یورپ میں ٹیکسی ڈرائیور کا بچہ ہو یا پھر وہ کسی ارب پتی شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ جانتا ہے میں جس دن جوان ہو جاؤں گا مجھے اپنی پاکٹ منی‘ اپنی رہائش اور اپنی سواری کا خود بندوبست کرنا ہو گا چنانچہ یہ بچے جوان ہونے سے پہلے ہی پارٹ ٹائم کام شروع کر دیتے ہیں‘

میں یورپ کے ایسے بے شمارگھروں میں گیا جن میں جوان بچے اپنے ہی والدین کے پے اینگ گیسٹ تھے‘ وہ والدین کے گھر میں رہتے تھے لیکن وہ کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے تھے‘ یورپ کے تمام بچے جوان ہونے کے بعد جاب کرتے ہیں اور جاب کیلئے ظاہر ہے ہنر درکار ہوتا ہے چنانچہ یہ بچپن ہی سے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لیتے ہیں اور اس عمل میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں برابر ہوتے ہیں‘ہم بھی آج سے فیصلہ کر لیں‘ ہم اپنے بچوں کا بوجھ صرف اٹھارہ برس تک اٹھائیں گے‘

یہ اس کے بعد خود کمائیں گے‘ بچیاں گھروں میں رہ کر کوئی نہ کوئی ایسا کام کریں جس سے یہ اپنا اور خاندان کا معاشی بوجھ اٹھا سکیں اور بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی ہلکی پھلکی جاب کریں یا کوئی چھوٹا موٹا بزنس کریں‘ اس سے بچوں میں اعتماد بھی پیدا ہو گا‘ انہیں جاب کرنے کی ٹریننگ بھی ملے گی‘ انہیں پیسے کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گا‘ خاندان پر معاشی دباؤ بھی کم ہو گا اور معاشرے میں نئی جابز بھی نکلیں گی۔دو‘ ہم اور ہمارے بچے صرف جاب کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘

ہم سمجھتے ہیں ہم پڑھیں لکھیں گے اور پھر بڑے عہدیدار بن جائیں گے‘ اس سوچ کے نتیجے میں ملک میں دو کروڑ بے روزگار ڈگری ہولڈر موجود ہیں اور ان میں ہر سال دس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہو جاتا ہے‘ ہمیں فوری طور پر اس اپروچ کو تبدیل کرنا ہو گا‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا تعلیم روزگار کیلئے نہیں‘ شعور کیلئے ہوتی ہے اور ہم نوکری کی بجائے کاروبار کریں گے‘ ہم پانچ دس ہزار روپے سے کوئی معمولی کام شروع کریں گے اور اپنی محنت سے اس کام کو لاکھوں کروڑوں روپے کے اثاثوں تک لے جائیں گے۔

آپ فرض کیجئے ایک شہر میں لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ یہ لاکھ لوگ صرف لوگ نہیں ہیں‘ یہ ایک لاکھ گاہک یا صارف بھی ہیں اور آپ کو اگر ان میں سے ایک ہزار گاہک مل جائیں اور آپ ہر گاہک سے صرف ایک روپیہ کمائیں تو آپ روزانہ ہزار روپے کما سکتے ہیں اور 20‘ 25 سال کے نوجوان کیلئے یہ اچھی خاصی رقم ہے‘ بس آپ کو ایک اچھا بزنس آئیڈیاچاہئے اور آپ تعلیم کی بدولت یہ آئیڈیا چند دنوں میں حاصل کر سکتے ہیں‘ کاروبار سنت بھی ہے اور ترقی کی چابی بھی۔

آپ ملازمت میں دس لاکھ روپے تنخواہ لے لیں تو بھی آپ ملازم ہی رہتے ہیں چنانچہ ہمیں پڑھے لکھے بچوں کا دماغ ملازمت سے کاروبار کی طرف شفٹ کرنا ہو گا‘ اس سے ہمارے بچے بھی خوشحال ہو جائیں گے‘ ملک میں ان پڑھ اور بے ہنر لوگوں کیلئے نوکریاں بھی نکلیں گی اور حکومت پر جابز کا دباؤ بھی کم ہو جائے گا اور تین‘ ہم میں سے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر ہونا چاہئے‘ ہم خواہ پی ایچ ڈی ہوں‘ ہم خواہ ارب پتی ہوں اور ہم خواہ وزیراعظم ہوں‘ ہمیں کوئی نہ کوئی کام‘ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھنا چاہئے‘ اس سے ہم کام کی عظمت سے بھی آگاہ ہوں گے اور ہمارے دل میں کام کرنے والوں کااحترام بھی پیدا ہوگا‘

امریکا میں ہر شخص کے پاس اپنا ”ٹول باکس‘ ہوتا ہے اور یہ عموماً گھر کے نلکے سے لے کر چھتوں کی مرمت تک خود کرتا ہے‘ اس وجہ سے امریکا میں موچی‘ نائی‘ ترکھان‘ لوہار اور سویپر کو بھی عزت دی جاتی ہے کیونکہ وہاں جارج بش اور باراک حسین اوبامہ بھی یہ کام جانتے ہیں۔ آپ اب آئیے سٹیٹ کی طرف۔ حکومت کو فوری طور پر تمام سرکاری سکولوں کو ووکیشنل اداروں میں تبدیل کر دینا چاہئے۔(میں عام تعلیم کیلئے اگلے کالم میں حل تجویز کروں گا‘ عام تعلیم کیلئے حکومت کو نئے سکول بنانا پڑیں گے اور نہ ہی بجٹ دینا پڑے گا)اور پاکستان میں ہاتھ سے کام کرنے والے ہر پیشے کیلئے کم از کم چار سال کا کورس لازمی قرار دے دیا جائے۔

ہم اس ضمن میں جرمنی کی مثال لے سکتے ہیں‘ جرمنی میں کوئی شخص اس وقت تک ترکھان‘ لوہار‘ درزی‘ موچی اور نائی کا کام نہیں کر سکتا جب تک وہ چار پانچ سال کا کورس نہ کر لے اور جرمنی کی وزارت تعلیم اسے باقاعدہ سر ٹیفکیٹ جاری نہ کر دے۔ جرمنی میں ہر بچے کیلئے روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ایک پیشے کی تعلیم ضروری ہے چنانچہ جرمنی کا چانسلر اور وزیراعظم سیاسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ترکھان‘ موچی‘ نائی یا پھر لوہار بھی ہوتا ہے۔

اگر جرمنی یہ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ حکومت پاکستان آج سے قانون بنا دے ملک میں تمام پیشوں سے منسلک 35 سال سے کم عمر ہنر مند ووکیشنل اداروں سے تعلیم حاصل کریں گے‘ ان لوگوں کو پانچ سال دئیے جائیں‘ ان میں سے جو شخص کورس کر لے اسے کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے اور جونہ کرے اس پر پابندی بھی لگا دی جائے اور اسے سخت ترین سزا بھی دی جائے۔ حکومت بے روزگار نوجوانوں اور بچوں کو دن کے وقت ووکیشنل ٹریننگ دے اور برسرروزگار لوگوں کیلئے شام اور رات کی کلاسیں شروع کی جائیں‘

انہیں ووکیشنل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ انگریزی‘ اردو اور ریاضی کی ابتدائی تعلیم بھی دی جائے‘ حکومت سکول نہ جانے والے تمام بچوں کیلئے ووکیشنل تعلیم ضروری قرار دے دے‘ اس سے تعلیم کو غیر ضروری سمجھنے والے والدین بھی مطمئن ہو جائیں گے اور بے کار بچوں کو بھی اپنا مستقبل روشن دکھائی دینے لگے گا۔ حکومت دنیا بھر سے ہنرمندوں کیلئے معاہدے کرے اور ان ووکیشنل اداروں کے کوالیفائیڈ بچوں کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں ملک سے باہر بھجوایا جائے‘ حکومت اس سلسلے میں بینکنگ سیکٹر کی مدد لے سکتی ہے‘

بینک ووکیشنل اداروں کے طالب علموں کو آسان قرضے دیں‘ یہ ووکیشنل اداروں کے طالب علموں کی فیسیں براہ راست جمع کرا دیں اور یہ لوگ تعلیم سے فراغت کے بعد کما کر بینکوں کو ادائیگی کر دیں‘ اس سے ملک میں معاشی تبدیلی بھی آجائے گی اور کام کے بارے میں ہمارا رویہ بھی بدل جائے گا۔حکومت ملک میں پانچ سال بعد مکان بنانے پر پابندی لگا دے‘ ملک میں تعمیرات کی ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیاں رجسٹرڈ کی جائیں‘ حکومت انہیں ایسے گھر ڈیزائن کروا کر دے جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہیں اور جن میں روشنی اور ہوا کا بندوبست بھی ہو‘

اس سے انرجی کامسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور تعمیراتی کمپنیوں کی شکل میں نیا شعبہ بھی کھل جائے گا‘ یہ کمپنیاں ووکیشنل اداروں سے فارغ التحصیل بچوں کو جاب بھی دیں گی اور عام شہریوں کو سستے اور اچھے گھر بھی مل جائیں گے اور یوں ملک میں ساٹھ کے قریب انڈسٹریز چلنے لگیں گی۔ حکومت تمام شہروں میں چھوٹے انڈسٹریل زون بنا دے‘ مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کو ان زونز کا سرپرست بنا دیا جائے‘ ان زونز میں زمین مفت الاٹ کی جائے‘ یہ زمین لیز پر ہو‘ یہ لیز نان ٹرانسفر ایبل ہو‘ نوجوانوں کو چھوٹے چھوٹے یونٹ لگانے کا موقع دیا جائے اوران یونٹس میں ووکیشنل اداروں سے فارغ التحصیل بچوں کو جاب دی جائے‘

ایک انڈسٹریل زون میں ایک ہی قسم کی پراڈکٹ بنائی جائیں‘ اس سے ہر علاقہ کسی ایک فن میں ماہر ہو جائے گا‘ اس سے کساد بازاری بھی کم ہو گی اور دوسرے علاقوں کی انڈسٹری بھی پروان چڑھے گی۔ مثلاً آپ فرض کیجئے‘ قصور میں دھاگا بن رہا ہے‘ پاکپتن میں بٹن بن رہے ہیں‘ بہاولپور میں بکرم بن رہی ہے‘ ملتان میں کپڑے کے رنگ تیار ہو رہے ہیں‘ سکھر میں گارمنٹس فیکٹریاں لگی ہیں اور حیدرآباد میں پیکنگ کی انڈسٹری کام کر رہی ہے‘ اس سے شہروں میں سپیشلائزیشن کا رجحان بھی بڑھے گا‘

خریدار کی سردردی بھی کم ہو جائے گی‘ ٹرانسپورٹیشن کی فیلڈ بھی ترقی کرے گی اور صنعت کار کی مناپلی بھی ٹوٹ جائے گی‘ سیاسی جماعتیں ارکان اسمبلی کی کارکردگی کو ووکیشنل اداروں اور انڈسٹریل زون سے ”لنک“ کر دیں جس رکن اسمبلی کی انڈسٹریل زون اور ووکیشنل ادارے زیادہ پیداوار دیں گے سیاسی جماعت اس رکن اسمبلی کے درجے میں بھی اضافہ کر دے اور اس کا ٹکٹ بھی پکا ہو جائے بصورت دیگر اس کا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے۔ شہر کی نالیاں‘ سڑکیں‘ گلیاں‘ پارکس‘ لائبریریاں‘ گراؤنڈز‘ سیوریج اور ٹریفک انڈسٹریل زون کے حوالے کر دی جائیں‘

یہ لوگ انہیں خود تعمیر کروائیں‘ خود ان کی حفاظت کریں‘ ان پر خود ٹکٹ لگائیں اور انہیں خود چلائیں‘ اس سے شہر میں ”سینس آف اونر شپ“ بھی ڈویلپ ہو گی‘ کرپشن بھی کم ہو جائے گی‘ حکومت کا ترقیاتی بجٹ بھی بچے گا‘ انفراسٹرکچر بھی بہتر ہو گا اور تعمیرات کا معیار بھی اچھا ہو جائے گا۔ حکومت اس خدمت کے بدلے صنعت کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ دے دے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…