آپ کسی روز پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں پر ریسرچ کریں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ دنیا کے 78 ممالک کے بااثر لوگ ان لیکس سے متاثر ہوئے لیکن کسی ملک میں سپریم جوڈیشری کا کمیشن بنا‘ فرانزک آڈٹ شروع ہوا اور نہ ہی ایک کروڑ پانچ لاکھ ”لیکس“ کے کسی ملزم کو سزا ہوئی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں‘ آپ ماضی کے ان ”فنکاروں“ کو سزا نہیں دے سکتے‘ یہ حقیقت ہے اور دنیا اس حقیقت سے واقف ہے‘ ہم زیادہ سے زیادہ مستقبل کےلئے پیش بندی کر سکتے ہیں اور دنیا اس وقت اس میں مصروف ہے‘ میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا‘ حکومت سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن بنا دے گی‘ یہ لوگ ”فرانزک آڈٹ“ پر بھی راضی ہو جائیں گے اور یہ پورے ملک کے سول اور ملٹری ”ملزموں“ کی تحقیقات کی اجازت بھی دے دیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ انہیں سوٹ کرتا ہے‘ یہ جانتے ہیں‘ یہ کمیشن ہزار سال تک تحقیقات مکمل نہیں کر سکے گا اور اگر تحقیقات مکمل ہو بھی گئیں تو بھی کسی ملزم کو سزا نہیں ہو سکے گی‘ کیوں؟ کیونکہ پوری دنیا میں آف شورکمپنیوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں چنانچہ پھر اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ مزید اخراجات‘ مزید ٹینشن‘ مزید گالیاں اور وقت کا مزید ضیاع اور بس اور ہم ماشاءاللہ چراغوں کی بتیاں نچوڑ کر نو من تیل جمع کرنے کے کام میں جت گئے ہیں اور ہم اب ہزار سال پورے ہونے‘ کمیشن کی تحقیقات مکمل ہونے اور خان اعظم عمران خان کی خواہشات کے جوان ہونے کا انتظار کریں گے‘ قدرت نے ہمیں ”ہائی مورل گراﺅنڈ“ پر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے احتساب کا ایک سنہری موقع دیا تھا لیکن افسوس عمران خان نے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر اور بعد ازاں جوڈیشل کمیشن اور فرانزک آڈٹ کے ”ٹریپ“ میں آ کر یہ موقع ضائع کر دیا چنانچہ اب ہم دھوپ میں بیٹھ کر کمیشن کی توپ کے گرم ہونے اور ٹھس کرنے کا انتظار کریں گے یا پھر انصاف کی رادھا کا رقص دیکھنے کےلئے نومن تیل جمع کرتے رہیں گے‘ واہ جی واہ!
ہم اگر واقعی اس ملک سے کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں امریکا‘ یورپ اور جاپان کے ماڈلز کا مطالعہ کرنا ہوگا‘ ہمیں یہ جاننا ہو گا دنیا کے پہلے 25 شفاف ملکوں نے ستر کی دہائی میں عوام کے ہاتھ سے کرنسی نوٹ کیسے واپس لئے تھے‘ ان ملکوں نے 90 فیصد لین دین بینکوں‘ کریڈٹ کارڈز اور چیکس پر کیسے شفٹ کیا تھا اور انہوں نے ٹیکس کو کیسے سانس جتنا ناگزیر بنا یا تھا اور ان اقدامات سے ان ملکوں میں کرپشن کیسے کم ہوئی تھی‘ آپ دنیا کا نقشہ سامنے بچھا کر بیٹھ جائیں‘ آپ کو دنیا کے ہر اس ملک میں کرپشن جوبن پر ملے گی جہاں عوام کے پاس کرنسی نوٹ ہیں‘ جہاں عملی زندگی میں کریڈٹ کارڈ‘ چیکس اور بینکوں کا عمل دخل کم ہے اور جہاں لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور آپ کو وہ تمام ملک کرپشن فری ملیں گے جہاں یہ تینوں چیزیں موجود ہیں۔آپ نے کبھی اس پر غور کیا بھٹو خاندان اور شریف فیملی نے آف شور کمپنیاں کیوں بنائی تھیں؟ ان لوگوں نے یہ فلیٹس‘ یہ پراپرٹی براہ راست کیوں نہیں خریدی‘ یہ ہنڈی کے ذریعے پیسے لندن شفٹ کرتے اور فلیٹس خرید لیتے‘ انہیں پانامہ اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں کمپنیاں بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ انہیں ضرورت تھی کیونکہ دنیا کا کوئی شخص برطانیہ‘ امریکا اور یورپ میں بینک کو بائی پاس کر کے پراپرٹی نہیں خرید سکتا‘ آپ کے اکاﺅنٹ میں جب بھی پیسے آئیں گے‘ آپ کو یہ رقم ریاست کے سامنے ”جسٹی فائی“ کرنا ہو گی اور آف شور کمپنیاں ایک قانونی ”جسٹی فکیشن“ ہیں چنانچہ یہ لوگ یہ کمپنیاں بنانے پر مجبور ہو گئے‘ ہم بھی جب تک عوام کی زندگی میں بینک کا عمل دخل نہیں بڑھائیں گے‘ ہم اس وقت تک ملک سے کرپشن ختم نہیں کر سکیں گے چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے‘ آپ ملک کے ہر بالغ شخص کےلئے بینک اکاﺅنٹ‘ ٹیکس نمبر اور اے ٹی ایم کارڈ لازمی قرار دے دیں‘ یہ تینوں چیزیں شناختی کارڈ کے ساتھ ہی بن جائیں‘ ملک کے ہر بالغ شخص کےلئے ٹیکس ریٹرن بھی لازمی قرار دے دی جائے‘ شہریوں کی تمام انفارمیشن جس میں ان کی صحت‘ تعلیم‘ جائیداد‘ بینک اکاﺅنٹس‘ تنخواہ‘ ملکی اور غیر ملکی سفر اور ٹیکس شامل ہوں یہ تمام اے ٹی ایم کارڈ میں محفوظ ہونی چاہئیں اور ایف بی آر کسی بھی شخص کے ڈیٹا میں جا کر کسی بھی وقت اس انفارمیشن کا تجزیہ کر سکے‘ ملک کے ہر شہری کی تنخواہ اور ادائیگیاں بینک کے ذریعے ہونی چاہئیں‘ یہ رقم براہ راست اے ٹی ایم کارڈ میں چلی جائے اور یہ شخص اسی کارڈ کے ذریعے ادائیگیاں کرے‘ حکومت ہر شخص کی تنخواہ سے دس فیصد ٹیکس کاٹ لے‘ اس شخص کی تنخواہ خواہ دس ہزار ہو یا دس لاکھ‘ اس کا دس فیصد ہر مہینے حکومت کے اکاﺅنٹ میں چلا جائے‘ کمپیوٹر سال کے آخر میں تمام شہریوں کے ڈیٹا کی پڑتال کرے اور جن لوگوں کی آمدنی ”ٹیکس ایبل انکم“ سے کم ہو حکومت دس فیصد اپنی طرف سے ڈالے اور اس کا سال بھر کا کاٹا ہوا ٹیکس اس کے اے ٹی ایم میں ڈال دے یوں ملک کے کم آمدنی کے حامل لوگوں کو سال کے آخر میں ایک تنخواہ کے برابر یک مشت رقم مل جائے گی‘ یہ ان کی بچت ہوگی مثلاً آپ فرض کیجئے‘ آپ کی ماہانہ تنخواہ دس ہزار روپے ہے‘ حکومت ہر مہینے آپ کی تنخواہ سے ایک ہزار روپے بطور ٹیکس کاٹ لیتی ہے‘ سال میں آپ کے بارہ ہزار روپے کٹ جاتے ہیں‘ سال کے آخر میں پتہ چلا آپ کی انکم ٹیکس ایبل نہیں تھی‘ حکومت اب آپ کے بارہ ہزار روپے میں بارہ سو روپے کا اضافہ کرتی ہے اور آپ کو تیرہ ہزار دو سو روپے واپس کر دیتی ہے‘ یہ سوا تیرہ ہزار روپے آپ کی بچت ہو گی‘ آپ ان سے بچوں کے کپڑے خرید سکتے ہیں یا پھر گھر کی کوئی ضروری چیز لے سکتے ہیں‘ ریاست کو اس اقدام سے چھ فائدے ہوں گے‘ ایک‘ ملک کے تمام شہری ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے‘ دو‘ ملک کا کوئی تاجر‘صنعت کار اور آجر حکومت سے چھپ نہیں سکے گا‘ تین‘ بینکنگ سیکٹر مضبوط ہو جائے گا‘ دس کروڑ اے ٹی ایم کارڈ بنیں گے‘ دو تین کروڑ مشینیں لگیں گی‘ دکاندار کریڈٹ کارڈ مشینیں رکھیں گے‘ چوری چکاری اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں بھی کم ہو جائیں گی اور دولت کی سرکولیشن میں بھی اضافہ ہو گا‘ چار‘ ملک کا ہر شہری بچت کے نیٹ ورک میں آ جائے گا‘ سال کے آخر میں اسے تنخواہ سے زیادہ رقم بونس کی شکل میں مل جائے گی ‘پانچ‘ ملک کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی رقم سسٹم میں داخل ہو گی یا خارج ہو گی وہ ریاست کے نوٹس میں آ جائے گی اور چھ آٹو میٹک سسٹم کی وجہ سے سرکاری اداروں بالخصوص ٹیکس جمع کرنے والے اداروں میں کرپشن کم ہو جائے گی‘ ٹیکس کی شرح بھی کم ہو گی جس کی وجہ سے لوگ آسانی سے ٹیکس بھی دے دیں گے‘ ہمارے جیسے ملک میں دس فیصد انکم ٹیکس مناسب ہے‘ آپ ٹیکس کو دس فیصد کر دیں‘ ملک کے تمام لوگ آسانی سے ٹیکس دینا شروع کر دیں گے۔
آپ اسی طرح کیش ‘ پراپرٹی‘ فرنیچر اور زیورات کے لین دین پر بھی پابندی لگا دیں‘ یہ بینک کے علاوہ ممکن نہ ہو‘ آپ پراپرٹی ٹیکس‘ گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس‘ اسلحہ لائسنس اور دوسری سرکاری فیسوں کو بھی آن لائین کر دیں‘ یہ رقوم بھی بینک اکاﺅنٹس سے خود بخود کٹ جائیں‘ آپ سرکاری پلاٹس پر بھی پابندی لگا دیں‘ فوج ہو یا سول ادارے‘ کسی کو پلاٹ کی سہولت حاصل نہیں ہونی چاہیے‘ پہلا گھر ٹیکس فری ہو‘ دوسرے پر ٹیکس دینا پڑے اورتیسرے گھر کا ٹیکس دو تین گنا ہو‘ ہیلتھ انشورنس اور گاڑیوں کی انشورنس لازمی قرار دے دی جائے‘ ملک میں کوئی گاڑی انشورنس کے بغیر سڑک پر نہ آ سکے‘انشورنس کےلئے ڈرائیونگ لائسنس لازمی ہو اور ڈرائیونگ لائسنس کےلئے ڈرائیونگ سکول کا سر ٹیفکیٹ ضروری ہو‘ سیاستدانوں کے بیرون ملک اکاﺅنٹس‘ جائیداد اور کمپنیوں پر بھی پابندی ہو‘ یہ لوگ اپنے تمام اثاثے ڈکلیئر کر کے سیاست میں آئیں‘ بچے اگر ملک سے باہر ہیں تو یہ لوگ ان کے اثاثے بھی ڈکلیئر کرنے کے پابند ہوں‘ سیاستدانوں کے بچے والدین کے اقتدار کے دوران سیاست کر سکیں‘ نئی ملازمت اور نہ ہی نیا کاروبار کر سکیں‘ سیاستدانوں کے خاندان کے کاروبار‘ اکاﺅنٹس اور پراپرٹیز کا حساب رکھنے کےلئے الیکشن کمیشن میں خصوصی سیل بنایا جائے‘ یہ سیل آن لائین کام کرے‘ تمام اثاثے آن لائین موجود ہوں‘ شہری ان پر اعتراض بھی کر سکیں اور اگر ان کے پاس کسی سیاستدان کے اضافی اثاثوں کا ثبوت موجود ہو تو یہ وہ ثبوت کمیشن کوآن لائین بھجوا سکیں اور کمیشن ان ثبوتوں کی باقاعدہ تفتیش کرے‘ ہمارے ملک کا ایک ایشو کھلی فائلیں بھی ہیں‘ پاکستان میں جب کوئی کیس شروع ہوتا ہے تو پھر اس کی فائل بند نہیں ہوتی‘ ملزم اور مدعی دونوں مر کھپ جاتے ہیں مگر فائل کھلی رہتی ہے‘ آپ کمال دیکھئے‘ خان لیاقت علی خان1951ءکو قتل ہوئے‘ ذوالفقار علی بھٹو کو 1979ءمیں پھانسی دی گئی‘جنرل ضیاءالحق کے طیارے کو1988ءمیں حادثہ پیش آیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو 2007ءمیں شہید ہوئیں لیکن ان کی فائلیں آج بھی کھلی ہیں‘ محترمہ کے قاتل کون تھے؟ جنرل ضیاءالحق کا طیارہ کس نے تباہ کیا‘ بھٹو صاحب کی پھانسی‘ پھانسی تھی یا عدالتی قتل اور لیاقت علی خان کے قتل کے محرکات کیا تھے؟ یہ سوال آج بھی زندہ ہیں‘ یہ فائلیں آج بھی کھلی ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ جا کر متعلقہ اداروں سے خود پوچھ لیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ ہمیں یہ ٹرینڈ بھی بدلنا ہو گا‘ آپ ہر فائل بالخصوص فنانشل ایشو کی فائل کی ”ایکسپائری ڈیٹ“ ضرور طے کریں‘ آپ فیصلہ کر لیں پانامہ لیکس آئیں یا پائجامہ لیکس لیکن ملک میں کوئی دس سال پرانا کیس نہیں کھلے گا اور پانچ سال بعد ہر فائل بند ہو جائے گی۔
آپ یقین کیجئے یہ فیصلے قوم کا وقت بھی بچائیں گے‘ توانائی بھی اور سرمایہ بھی ورنہ دوسری صورت میں ہم اسی طرح مینڈک تولتے تولتے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے‘ ہم قبر میں بند ہو جائیں گے لیکن ہماری فائلیں کھلی رہیں گی۔
حل در حل
23
اپریل 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں