ملک کے ایک سابق صدر انتقال کر گئے

14  فروری‬‮  2015

فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے‘ ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لاء لگایا‘ سکندر مرزا صدر پاکستان تھے‘ ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا‘ میجر جنرل یحییٰ خان اور میجر جنرل عبدالحمید نے استعفیٰ تیار کیا‘ میجر جنرل عبدالمجید ملک نے یہ استعفیٰ ٹائپ کیا اور جنرل اعظم خان‘ جنرل ڈبلیو اے برکی اور جنرل کے ایم شیخ یہ استعفیٰ لے کر ایوان صدر پہنچ گئے‘ سکندر مرزا کا استعفیٰ ٹائپ کرنے والے جنرل عبدالمجید ملک فوج سے ریٹائر ہوئے‘ سیاست میں آئے‘ پاکستان مسلم لیگ‘ جونیجو لیگ‘ ن لیگ اور ق لیگ سے ہوتے ہوئے آج کل خاموش زندگی گزار رہے ہیں‘ سکندر مرزا نے استعفے پر دستخط کر دیئے اوریوں ملک میں مارشل لاؤں کا دھانہ کھل گیا‘ جنرل ایوب خان اکتوبر 1958ء سے مارچ 1969ء تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے‘ ہم اگر پاکستان کی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑے گا ایوب خان کا دور اچھائیوں اور برائیوں کا عظیم مرکب تھا‘ برائیوں میں مارشل لاؤں کا آغاز‘ پاکستان کا امریکا کی طرف یک طرفہ جھکاؤ‘ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم ‘ ریاست کا ویلفیئر کی بجائے سیکورٹی سٹیٹ بن جانا اور ملک میں ابن الوقت سیاستدانوں کی نرسری جیسے کارنامے شامل ہیں جبکہ اچھائیوں میں انفرا سٹرکچر‘ اداروں کا آغاز اور پاکستان کی عالمی پذیرائی جیسے کارنامے شامل ہیں‘ ہم ملک میں جب بھی ترقیاتی کاموں کی تاریخ لکھیں گے ہمیں ایوب خان کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑے گا‘ پاکستان میں بجلی ہو‘ گیس ہو‘ سڑکیں ہوں‘ پل ہوں‘ ڈیمز ہوں‘ دریا اور نہریں ہوں‘ ریلوے ہو‘ پی آئی اے ہو‘ تعلیمی نظام ہو‘ ٹیلی فون ہو یا پھر ٹیلی ویژن ہو آپ ایوب خان کی خدمات اور وژن کو سلام پیش کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے‘گوہر ایوب فیلڈ مارشل ایوب خان کے صاحبزادے ہیں‘ یہ فوج میں کیپٹن تھے‘ ایوب خان کے حکم پر گوہر ایوب کو صدر کا اے ڈی سی بنا دیا گیا‘ یہ تین سال صدر کے اے ڈی سی رہے‘ گوہر ایوب نے بعد ازاں فوج سے استعفیٰ دیا‘ کاروبار شروع کیا‘ سیاست میں آئے اور ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں رکن قومی اسمبلی‘ سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر رہے‘ یہ میاں نواز شریف کے سابق دور میں وزیر خارجہ اور پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر بھی رہے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان مسلم لیگ ق میں چلے گئے‘ گوہر ایوب کے صاحبزادے عمر ایوب شوکت عزیز کی کابینہ میں خزانہ کے وزیر مملکت بھی رہے‘ یہ دونوں باپ بیٹا آج کل دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن میں ہیں۔
گوہر ایوب نے چند برس قبل اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب شائع کرائی‘ میں نے کل یہ کتاب ختم کی‘ یہ کتاب سیاسی معلومات کا خزانہ ہے‘ آپ اس کتاب میں ایوان اقتدار میں پرورش پانے والی سازشیں بھی دیکھتے ہیں اور ملک کے بڑے بڑے لیڈروں کے اصل چہرے بھی‘ کتاب میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن پر ہم مہینوں بات کر سکتے ہیں لیکن مجھے ایوب خان کے ذاتی کردار کے حوالے نے زیادہ متاثر کیا‘ یہ واقعات ماضی کے حکمرانوں کے ذاتی کردار کی اس عظمت کا اظہار ہیں جو آج کے حکمرانوں میں مفقود ہے‘ آپ ایوب خان کی زندگی کے واقعات ملاحظہ کیجئے اور اس کے بعد موجودہ حکمرانوں کی ذات دیکھئے‘ آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوگا مثلاً ایوب خان نے جب سکندر مرزا کو معزول کر کے لندن جلاوطن کیا تو بیگم اصفہانی نے سکندر مرزا اور ناہید مرزا کو رخصت کرنے کیلئے ائیر پورٹ جانے کی اجازت مانگی‘ ایوب خان نے نہ صرف انہیں اجازت دے دی بلکہ انہیں یہ پیش کش کی ’’آپ اگر ان کے ساتھ لندن تک جانا چاہیں تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘‘ ایوب خان نے سکندر مرزا کیلئے دو پنشن شروع کرا دیں‘ ایک ملازمت کی پنشن اور دوسری صدارت کی پنشن‘ ایوب خان نے سکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا کو فون کر کے کہا ’’آپ کے والد میرے بہت اچھے دوست ہیں‘ وہ جلاوطن ہوئے ہیں لیکن آپ اور آپ کے خاندان کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘‘ ہمایوں مرزا کو صدر سے رابطہ رکھنے کی پیش کش بھی کی گئی‘ ایوب خان نے سکندر مرزا کی کابینہ کے کسی وزیر کو برطرف نہیں کیا‘ پرانی کابینہ نئے صدر کے ساتھ کام کرتی رہی‘ سابق صدر کے ملٹری سیکرٹری‘ اے ڈی سی اور پرنسپل سیکرٹری بھی برقرار رہے‘ ایوان صدر کا باورچی تک نوکری پر قائم رہا‘ سکندر مرزا متوسط قامت کے مالک تھے جبکہ ایوب خان لمبے تھے‘ ایوب خان سکندر مرزا کے بیڈ پر نہیں آتے تھے لیکن نئے صدر نے پرانے صدر کا بیڈ تبدیل کرنے کی بجائے بیڈ کا فٹ بورڈ ہٹا یا‘ دوکشن سٹول لگائے اور وہ اس چھوٹے بیڈ پر سوتے رہے‘ صدر نے سیاستدانوں کو ’’ایبڈو‘‘ جیسے قانون کے ذریعے ڈس کوالی فائی کر دیا‘ ایبڈو کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان سیاست سے فارغ ہو گئے لیکن ایوب خان بعدازاں ان سیاستدانوں سے ملاقات کرتے رہے‘ یہ ان کی خوشی غمی کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے تھے‘ یہ مری میں ممتاز دولتانہ کے خاندان سے بھی ملتے تھے اور پولیس نے جب خان عبدالقیوم خان کو ریلی نکالنے پر گرفتار کر لیا تو خان صاحب نے صدر کو خط لکھا ’’آپ ملک سے باہر جا رہے ہیں‘ پولیس آپ کی غیر موجودگی میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی‘‘۔ ایوب خان کو یہ خط ائیرپورٹ پر ملا‘ صدر نے جہاز پر سوار ہونے سے قبل خان عبدالقیوم خان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا‘ ایوب خان سادہ کھانا کھاتے تھے‘ انہوں نے کبھی کسی خاص ڈش کی فرمائش نہیں کی‘ وہ گلاس میں صرف اتنا پانی ڈالتے تھے جتنا انہوں نے پینا ہوتا تھا‘ وہ رات کو اٹھ کر ایوان صدر کی بتیاں بجھاتے تھے‘ وہ جنرل تھے تو سائیکل پر دفتر چلے جاتے تھے‘ صدر بنے تو ریل کے ذریعے سفر کرنے لگے‘ پورے عہد صدارت میں پرانی کار استعمال کی‘سٹاف کو نئی کار نہیں خریدنے دی‘ وہ رات کو مری روڈ پر ڈرائیونگ کرتے تھے‘ راستے میں کوئی بوڑھا نظر آ جاتا تو اسے سٹاف کار میں بٹھا لیتے تھے‘ وہ صرف ضرورت کی چیز خریدتے تھے‘ پیسہ ضائع نہیں ہونے دیتے تھے‘ گوہر ایوب اپنی اہلیہ کے ساتھ ایوان صدر جاتے تھے‘ صدر بیٹے اور بہو کو کھانا کھلاتے تھے لیکن کھانے کے بعد ڈنر کا بل آتا تھا اور بیٹا اور بہو اپنے کھانے کا بل ادا کر کے واپس جاتے تھے‘ صدر بھی ایوان صدر میں اپنے کھانے‘ چائے اور مشروبات کا بل ادا کرتے تھے‘ صدر ایوب خان کا گاؤں ریحانہ تھا‘ یہ گاؤں ہری پور کے مضافات میں واقع ہے‘ صدر نے وہاں اپنا ذاتی گھر تعمیر کرایا‘ گھر میں پانی کا کنکشن نہیں تھا‘ گھر کیلئے پانی گدھوں پر لاد کر لایا جاتا تھا‘ ریحانہ کے گھر میں صدر ایوب کے انتقال تک ٹیلی فون نہیں تھا‘ صدر کبھی ہیلی کاپٹر پر گاؤں یا ہری پور نہیں گئے‘ صدر کے انتقال پر دس جنرل دو ہیلی کاپٹروں پر ریحانہ پہنچے تو گاؤں کے لوگوں نے زندگی میں پہلی بار ہیلی کاپٹر دیکھے‘ وہ اپنی پرانی ٹوپیاں ضائع نہیں کرتے تھے‘ وہ ٹوپیاں کیپ میکر کے پاس بھجوا کر ان کا سٹائل تبدیل کرا لیا کرتے تھے‘ وہ ذاتی پین استعمال کرتے تھے‘ پین کی نب ٹوٹ جاتی تھی تو وہ نئی نب لگوا لیتے تھے لیکن نیا پین نہیں خریدتے تھے‘ ایوب خان نے اپنے صاحبزادوں اختر ایوب اور گوہر ایوب کی اکٹھی شادیاں کیں‘ گوہر ایوب کی بارات پشاور گئی‘ بارات میں صرف خاندان کے چند لوگ شامل ہوئے‘ ولیمہ دونوں بیٹوں کا اکٹھا ہوا جس میں صرف اڑھائی سو لوگ شریک ہوئے‘ ایوب خان کی کابینہ نے گوہر ایوب اور اختر ایوب دونوں کو چاندی کا ایک ایک ٹی سیٹ دیا‘ یہ تحفہ پوری کابینہ کی طرف سے تھا‘ بیگم بھٹو نے گوہر ایوب کو ذوالفقار علی بھٹو کا سگریٹ کیس اور اپنا ذاتی سونے کابریسلٹ دیا‘ گوہر ایوب نے یہ دونوں تحائف بعد ازاں بے نظیر بھٹو کو اس وقت واپس دے دیئے جب وہ 1988ء میں وزیراعظم بنیں‘ ایوب خان کے سات بچے تھے لیکن وہ لوگوں کو ہمیشہ کہتے تھے آپ اپنا خاندان چھوٹا رکھیں‘ لوگ مسکراتے تھے تو وہ ہنس کر کہتے تھے ’’ میں جو کہہ رہا ہوں‘ وہ کرو‘ میں نے جو کیا آپ اس کی تقلید نہ کرو‘‘۔
گوہرایوب نے اپنی کتاب میں چین کے بانی ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بھی لکھا‘ یہ چین گئے تو یورپی میڈیا اس وقت چین کی قیادت پر سخت نکتہ چینی کر رہا تھا‘ گوہر ایوب نے ماؤ کی توجہ اس نکتہ چینی پر مبذول کرائی‘ ماؤ نے مسکرا کر چو این لائی کی طرف دیکھا اور جواب دیا ’’ چو این لائی غیر ملکی میڈیا کی نکتہ چینی پر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ہمارے اقدامات سے بیرونی طاقتوں کو تکلیف ہو رہی ہے‘‘ ماؤ کا کہنا تھا ’’ غیر ملکی میڈیا ہماری تعریف شروع کر دے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں اور میں چو این لائی سے پوچھتا ہوں ہم نے کون سی ایسی غلطی کر دی جس کی وجہ سے دنیا چین سے خوش ہو رہی ہے‘‘۔ گوہر ایوب نے ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا‘ انہوں نے لکھا ’’ ستمبر 1968ء کو کراچی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اے این ترین نے مجھے بتایا‘ ملک میں فوجی مداخلت کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ میں نے ترین کی والد صاحب سے ملاقات کرا دی‘ ملاقات کے بعد والد نے مجھ سے پوچھا‘ کیا ترین کے خدشات درست ہیں‘ میں نے جواب دیا‘ ہاں اور ہمیں صورت حال کا بغور مشاہدہ کرنا چاہیے‘ ایوب خان نے ہنس کر کہا‘ تم جنرل ہیڈ کوارٹر میں کام کر چکے ہو‘ تمہیں معلوم ہونا چاہیے پاک فوج کا کمانڈر انچیف جب اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی روک سکتا ہے‘‘ ملک میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو چند لوگ صدر کے پاس آئے اور مشورہ دیا‘ آپ ملک میں ریفرنڈم کرا دیں‘ ایوب خان نے جواب دیا ’’ باہر سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ کیا یہ ریفرنڈم نہیں‘‘ ایوب خان کو مشورہ دیا گیا ’’ ملک میں اگر پانچ ہزار لوگ مار دیئے جائیں تو حالات قابو میں آ جائیں گے‘‘ ایوب خان نے جواب دیا ’’ میں پچاس مرغیاں نہیں مار سکتا آپ لوگ مجھے پانچ ہزار بے گناہ لوگوں کو قتل کر نے کا مشورہ دے رہے ہیں‘‘ گوہر ایوب نے والد کے انتقال کا واقعہ بھی تحریر کیا‘ ایوب خان کا اردلی 20 اپریل 1974ء کو دن ایک بجے ان کے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا ایوب خان دو چھوٹے اور ایک لمبا گول تکیہ سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے ہیں‘جنرل کے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں ہیں اور سرہانے ریڈیو بج رہا ہے‘ اردلی نے جگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا ایوب خان نیند کے دوران ہی انتقال کر گئے ہیں‘ گوہر ایوب نے انکشاف کیا‘ ایوب خان کے انتقال کے وقت ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی‘ بھٹوجنازے میں شریک نہیں ہوئے‘ ایوب خان کے انتقال کی شام پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر بس اتنی خبر نشر ہوئی ’’ملک کے ایک سابق صدر وفات پا گئے‘‘ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے ایوب خان کا نام تک لینا گوارہ نہیں کیا تھا۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…