ڈاکٹر امجد ثاقب اور گوتلب ولیم لیٹنرکے خواب ایک جیسے ہیں۔
گوتلب لیٹنر ہنگری کا رہنے والا تھا‘ بوڈا پسٹ اس کا شہر تھا‘ وہ یہودی تھا‘ والدین جرمنی سے ہنگری آباد ہوئے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے زبانیں سیکھنے کا ملکہ دے رکھا تھا‘ وہ جو لفظ سنتا تھا‘ اسے حفظ کر لیتا تھا‘ وہ لہجوں کی نقالی کا بھی ماسٹر تھا‘ عربی بولتا تھا تو اس کا لہجہ عربی ہوتا تھا‘ فرنچ کو فرنچ لہجے میں بولتا تھا‘ جرمن زبان پیدائشی جرمنوں کے لہجے میں بولتا تھا اور انگریزی! وہ انگریزی انگریزوں کی طرح بولتا تھا‘ وہ نو سال کی عمر میں یورپ کی تقریباً تمام بڑی زبانیں بول لیتا تھا‘ ہنگری 158 سال ترکوں کی کالونی رہا‘ ہنگری کی زبان‘ ثقافت اور طرز رہائش پر طویل عرصہ ترکوں کا اثر رہا‘ آج بھی آپ کو ہنگری کی زبان میں ترک لفظ مل جاتے ہیں‘ گوتلب لیٹنر نے جوانی میں ترکی زبان اور ثقافت سیکھنا شروع کی‘ وہ ترکی بھی گیا‘ یہ سفر اور ترکی زبان اسے مسلمانوں اور اسلام کے قریب لے گئی‘ لیٹنر نے اسلامی تاریخ‘ قرآن مجید اور نبی اکرم ؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا تو یہ مسلمانوں اور اسلام دونوں سے متاثر ہو گیا‘ ترکی زبان کے بعد اس نے عربی سیکھی اور یہ اس کے بعد سر سے پاؤں تک مسلمان ہو گیا بس اس نے اسلام قبول نہ کیا‘ یہ یہودی رہ کر مسلمان تھا‘ یہ بوڈا پسٹ سے برطانیہ گیا‘ کنگز کالج جوائن کیا‘ اورینٹل سیکشن کا پروفیسر اور ڈین بنا دیا گیا‘ لیٹنر نے اس دور میں لندن میں مسلمان طالب علموں کیلئے ایک پرائیویٹ ہاسٹل بنایا‘ یہ ہاسٹل ’’مسلمان ہاسٹل‘‘ کہلاتا تھا‘ ہاسٹل میں حلال خوراک بھی ملتی تھی اور اذان بھی ہوتی تھی‘ لیٹنر نے ہاسٹل میں بھوپال کی ایک شہزادی کے عطیے سے شاندار مسجد بھی بنائی‘ یہ لندن کی دوسری مسجد تھی‘ یہ مسجد پانچ ہزار پاؤنڈ کے عطیے سے بنائی گئی‘لیٹنر اس وقت تک یورپ میں مشرقی علوم‘ اسلام اور اسلامی ثقافت کا ماہر سٹیبلش ہو چکا تھا‘ انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘ 1858ء میں لاہور میں گورنمنٹ کالج کی بنیاد رکھی‘ یہ کالج پنجاب کے امراء‘ جاگیر داروں اور رؤساء کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کیلئے بنایا گیا تھا‘ انگریز بنیادی طور پر پنجاب میں ایک ایسی رولنگ کلاس پیدا کرنا چاہتا تھا جو شکل‘ ثقافت اور زبان میں پنجابی ہو لیکن اس کے خیالات مغربی ہوں‘ یہ کلاس پنجابی انگریز کہلائے اور یہ مستقبل میں انگریزوں کے ساتھ مل کر پنجاب پر حکمرانی کرے اور یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک پنجاب کے جاگیرداروں اور امراء کے بچوں کو جدید تعلیم نہ دی جائے چنانچہ انگریز سرکاری نے 1858ء میں لاہور میں گورنمنٹ کالج کی بنیادی رکھ دی‘1864ء میں جب کالج کی تعمیر مکمل ہو گئی تو انگریزوں کو اس کالج کیلئے ایک ایسے پرنسپل کی ضرورت تھی جو مشرقی علوم بالخصوص مسلم کلچر سے بھی واقف ہو‘ مقامی زبان بھی جانتا ہو اور وہ انگریز بھی ہو‘ انگریز سرکار نے پرنسپل کی پوسٹ کیلئے لندن میں اشتہار دے دیا‘ یہ اشتہار گوتلب لیٹنر کی نظر سے گزرا‘ اس نے درخواست لکھی اور لندن میں انڈین آفس چلا گیا‘ انٹرویو ہوا اور وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کیلئے منتخب کر لیا گیا‘ یہ انتخاب آگے چل کر ہندوستان کے مسلمانوں بالخصوص پنجابی مسلمانوں کیلئے خوش قسمتی ثابت ہوا۔
گوتلبلیٹنر1864ء میں لاہور آیا‘ لاہور آتے ہی اس نے دو کمال کئے‘ اس نے گورنمنٹ کالج کے دروازے عام لوگوں کیلئے بھی کھول دیئے‘ یہ کالج امراء کے بچوں کیلئے بنا تھا لیکن لیٹنر نے یہ تفریق ختم کر دی‘ اس نے امراء کے کالج کو پورے پنجاب کا کالج بنا دیا‘ دوسرا اس نے کالج میں آرٹس کے ساتھ ساتھ سائنس کے مضامین بھی شروع کرا دیئے یوں پنجاب کے طالب علموں کو سائنس پڑھنے کا موقع ملا‘ لیٹنر نے ہندوستان بھر سے مسلمان عالم جمع کئے اور یہ انہیں گورنمنٹ کالج لے آیا‘ مولوی محمد حسین آزاد جیسے عالم اور نثر نگار لیٹنر کے معاون تھے‘لیٹنر نے عربی گرائمر‘ اسلامی تاریخ اور انگریزی کتابوں کے تراجم کا سلسلہ بھی شروع کرایا‘ اس نے انگریزی ڈرامے کو اردو میں بھی متعارف کرایا‘ لیٹنرنے لاہور سے سول اینڈ ملٹری گزٹ جیسا اخبار بھی شروع کرایا‘ یہ 91 سال چلتا رہا‘ اس اخبار نے ہندوستان کی چار نسلوں کی آبیاری کی‘ لیٹنر کو لاہور میں یونیورسٹی کی کمی محسوس ہوتی تھی‘ وہ لاہور میں یورپ کے معیار کی یونیورسٹی بنانا چاہتا تھا‘ وہ یونیورسٹی کا آئیڈیا لے کر گورنر کے پاس گیا مگر انگریزوں کو لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا‘ لیٹنرمضبوط اعصاب کا ایک ایسا شخص تھا جو جب کوئی بات ٹھان لیتا تھا تو وہ بات پوری ضرور ہوتی تھی‘ لیٹنر نے لاہور میں یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا چنانچہ اس نے انگریز سرکاری سے مایوس ہو کر عام آدمی کے پاس جانے کا فیصلہ کیا‘ لیٹنر نے پہلے لاہور‘ پھر پنجاب اور اس کے بعد برطانیہ کے مخیر حضرات کے سامنے جھولی پھیلانا شروع کر دی‘ لوگ اس کا احترام کرتے تھے لہٰذا انہوں نے اس کی جھولی بھرنا شروع کر دی‘ دیکھتے ہی دیکھتے 35 ہزار پاؤنڈ جمع ہو گئے‘ گوتلب لیٹنر نے ان 35 ہزار پاؤنڈز سے پرانی انارکلی کے ساتھ گورنمنٹ کالج کی بغل میں پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی‘ یہ اس یونیورسٹی کا رجسٹرار بن گیا‘ یہ یونیورسٹی پنجاب میں ایک انقلاب تھی‘ یونیورسٹی نے پورے ہندوستان کا مزاج بدل دیا‘ لیٹنر یونیورسٹی بنانے کے بعد پنجاب میں سکول قائم کرنے میں جت گیا‘ اس نے صوبے کے تمام شہروں اور قصبوں میں سرکاری سکول قائم کئے اور کمال کر دیا‘ تاریخ کا یہ عجیب و غریب کردار تاریخ میں گم ہو گیا لیکن اس کے قائم کردہ سکول آج بھی قائم ہیں‘ لیٹنر کی بنائی یونیورسٹی بھی 133 سال گزرنے کے باوجود سلامت ہے‘ یہ آج بھی ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے‘ آپ لاہور جائیں‘ پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کے سامنے کھڑے ہوں اور ایک لمحے کیلئے سوچیں‘ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل ہنگری سے ایک یہودی استاد یہاں آیا اور پورے خطے کا مقدر بدل کر چلا گیا‘ مجھے یقین ہے آپ بھی تاریخ کے اس گمنام کردار کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بھی گوتلب لیٹنر جیسا خواب لے کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب میڈیکل ڈاکٹر تھے‘ سی ایس ایس کیا‘ ڈی ایم جی میں آئے‘ پنجاب کے مختلف حصوں میں کام کرتے رہے‘ ڈاکٹر صاحب نے 2001ء میں دس ہزار روپے سے اخوت کے نام سے قرض حسنہ کی سکیم شروع کی‘ یہ سکیم آگے چل کر سماجی انقلاب ثابت ہوئی‘ دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا ادارہ آج بارہ ارب روپے کا مالک بن چکا ہے‘ساڑھے سات لاکھ گھرانے پچاس ارب سے زیادہ کی دولت کما چکے ہیں‘ اخوت کی اڑھائی سو شہروں میں ساڑھے تین سو برانچیں ہیں‘ یہ تنظیم آج تک آٹھ لاکھ خاندانوں کو قرض حسنہ دے چکی ہے‘ یہ لوگ غریبوں کو دس سے 25 ہزار روپے قرضہ دیتے ہیں اور لوگ اس معمولی رقم کی برکت سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اخوت نے قرض حسنہ کے ساتھ ساتھ کلاتھ بینک بھی بنا لیا‘ یہ لوگ عام لوگوں سے ان کی ضرورت سے زائد کپڑے جمع کرتے ہیں اور یہ کپڑے بعد ازاں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیئے جاتے ہیں‘ یہ ہیلتھ سروسز میں بھی کام کر رہے ہیں اور یہ اب خواجہ سراؤں کی بحالی کا کام بھی کر رہے ہیں‘ اخوت حقیقتاً ایک انقلاب ہے اور ڈاکٹر امجد ثاقب اس انقلاب کے بانی ہیں‘ یہ اپنی زندگی اخوت کیلئے وقف کر چکے ہیں‘ نوکری کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور یہ اب دن رات اخوت کا کام کرتے ہیں‘ ڈاکٹر امجد ثاقب بیس سال قبل امریکی ریاست نیویارک کے قصبے ’’مونٹی چیلو‘‘ گئے‘ مونٹی چیلو امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کی قیام گاہ تھی‘ جیفرسن نے امریکا کی مشہور یونیورسٹی ’’ یونیورسٹی آف ورجینیا‘‘ کی بنیاد رکھی‘ مونٹی چیلو میں ایک کتبہ تھا جس پر تھامس جیفرسن کا ایک خوبصورت قول درج تھا‘ تھامس جیفرسن نے کہا ’’ میں امریکا کا صدر رہا لیکن میری شدید خواہش ہے میں امریکی صدر کی بجائے امریکا کی ایک شاندار یونیورسٹی کے بانی کی حیثیت سے پہچانا جاؤں‘‘ یہ قول ڈاکٹر امجد ثاقب کے دل پر نقش ہو گیا چنانچہ انہوں نے اس دن گوتلب لیٹنر کی طرح پاکستان میں یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ چند سال قبل چیف سیکرٹری پنجاب ناصر کھوسہ سے ملے‘ کھوسہ صاحب کو آئیڈیا پسند آیا‘ یہ اس آئیڈیا کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پاس لے گئے‘ وزیراعلیٰ یہ پرپوزل کابینہ میں لے گئے اور کابینہ نے یونیورسٹی کی منظوری دے دی‘ یونیورسٹی کی منظوری کے بعد زمین کا ایشو تھا‘ ڈاکٹر صاحب نے لاہور کے قریب ضلع قصور میں 16 ایکڑ زمین کا بندوبست کر لیا‘ زمین کے حصول میں پاکستان کے لوگوں نے ان کی مدد کی‘ زمین مل گئی تو یونیورسٹی بنانے کیلئے بنیادی سرمائے کا ایشو کھڑا ہو گیا‘ یونیورسٹی کیلئے شروع میں 30 کروڑ روپے درکار ہیں‘ یہ خطیر رقم ہے‘ ڈاکٹر صاحب کیلئے 30 کروڑ روپے جمع کرنا مشکل تھا‘ دوستوں سے مشورہ ہوا تو دوستوں نے عجیب حل نکالا‘ دوستوں نے تجویز دی ہم اگر 30 کروڑ روپے کو ایک ہزار سے تقسیم کریں تو یہ تین لاکھ بنیں گے‘ ہم اگر تین لاکھ کی اس فگر کو تین لاکھ اینٹیں سمجھ لیں اور ہر اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپے طے کر دیں اور اس کے بعد مخیر حضرات سے درخواست کریں آپ ایک ہزار روپے ادا کر کے پنجاب کی شاندار ترین یونیورسٹی میں ایک اینٹ لگا دیں تو اس سے 30 کروڑ روپے بھی جمع ہو جائیں گے اور کار خیر میں تین لاکھ لوگ بھی شریک ہو جائیں گے‘ ڈاکٹر صاحب آج کل یہ تین لاکھ اینٹیں بیچ رہے ہیں‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کے منہ سے یہ آئیڈیا سنا تو میں ان کی ذہانت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ واقعی انقلابی آئیڈیا ہے‘ میری ملک میں کارخیر کرنے والے تمام حضرات سے درخواست ہے آپ بھی جب کوئی منصوبہ بنائیں تو آپ ڈاکٹر صاحب کی طرح منصوبے کو اینٹوں میں تقسیم کریں‘ فی اینٹ قیمت طے کریں‘ مخیر حضرات کو یہ اینٹیں خریدنے کی ترغیب دیں اور یوں آپ کا منصوبہ مکمل ہو جائے گا‘ میرا عمران خان کو بھی مشورہ ہے آپ بھی پشاور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کیلئے یہ تکنیک استعمال کریں‘ آپ کو بھی ایک ارب روپے جمع کرتے دیر نہیں لگے گی اور میری ملک کے مخیر حضرات سے بھی درخواست ہے آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کروڑوں‘ اربوں روپے سے نواز رکھا ہے‘ یہ دولت آپ کی آنکھ بند ہوتے ہی آپ کی نہیں رہے گی‘ آپ کی قبر کی مٹی ابھی خشک نہیں ہو گی کہ لوگ آپ کی گاڑیاں‘ آپ کے گھر‘ آپ کی فیکٹریاں اور آپ کے بینک بیلنس آپس میں تقسیم کر لیں گے‘ لوگ آپ کی قبر تک کو فراموش کر دیں گے‘ آپ اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ چند دن کیلئے تھامس جیفرسن بن جائیں‘ آپ اپنی دولت کے ایک حصے کی قربانی دے کر ’’ اخوت یونیورسٹی‘‘ کی اینٹیں خرید لیں‘ آپ کا نام آپ کے بعد بھی زندہ رہے گا‘ آپ بھی یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل ہو جائیں گے‘ مجھے یقین ہے آپ میں ایسے سینکڑوں لوگ موجود ہیں جو تن تنہا یہ تین لاکھ اینٹیں خرید سکتے ہیں‘ کاش ایسے لوگوں میں سے کوئی ایک آگے آ جائے‘ کوئی ایک شخص پاکستان کا گوتلب لیٹنر بن جائے‘ کوئی ایک تھامس جیفرسن بن جائے‘ کاش ایسا ہو جائے۔
نوٹ: آپ اخوت یونیورسٹی کیلئے ڈاکٹر امجد ثاقب سے 0300-8420495 اور ای میل [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
کاش کوئی یہ تین لاکھ اینٹیں خرید لے
5
فروری 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں