محمد خان جونیجو کے دور کو ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سنہری ترین عہد قرار دے سکتے ہیں‘ محمد خان جونیجو ضلع سانگھڑ کے گاؤں سندھڑی کے زمیندار تھے‘ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے سینٹ پیٹرک سکول سے حاصل کی تھی اور اس کے بعد وہ دوسرے سندھی وڈیروں کی طرح اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے تھے‘ محمد خان جونیجو نے 1954ء میں زمینداری اور سیاست ساتھ ساتھ شروع کی اور وہ 1962ء میں پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے اور اس کے بعد وہ مختلف ادوار میں مختلف وزارتوں کے وزیر رہے‘
وہ1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزیراعظم بنا دیئے گئے‘ وہ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ‘ شریف النفس‘ دھیمے اور بردبار شخص تھے چنانچہ اس وقت کے باوردی صدر جنرل ضیاء الحق کا خیال تھا جو نیجو ان کے لئے ایک آئیڈیل شوکت عزیز ثابت ہوں گے لیکن 23 مارچ 1985ء کو محمد خان جونیجو نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب ہی میں جنرل صاحب کی یہ خوش فہمی دور کردی ‘جو نیجو صاحب نے واضح الفاظ میں فرمایا ’’ جمہوریت اور آمریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی‘‘ بطور وزیراعظم انہوں نے صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اپنی پہلی سرکاری ملاقات میں بھی بڑی سادگی سے صدر ضیاء الحق سے پوچھ لیا ’’ جنرل صاحب آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں‘‘ اور جنرل ضیاء الحق اپنی چوائس پر بڑی دیر تک کف افسوس ملتے رہے‘ محمد خان جونیجو نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان میں بے شمار جمہوری روایات قائم کیں ‘ان روایات کی مثال اس سے قبل ملتی تھی اور نہ ہی مستقبل میں ملی‘ ان کے دور میں پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی‘ جنرل ضیاء الحق آٹھ برس سے پارٹی کو کرش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ‘ جنرل ضیاء الحق نے پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا‘ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن کردیا‘
پارٹی کی دوسری قیادت کو جیلوں اور حوالات میں پھینکوا دیا اور کارکنوں کو سرے عام کوڑے مارے لیکن اس کے باوجود نہ صرف پارٹی قائم رہی بلکہ وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہی‘ محمد خان جونیجو کی کوششوں سے جنرل ضیاء الحق نے 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھا لیا اور ملک سے ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان کردیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا اعلان کردیا‘ محترمہ کا یہ اعلان محمد خان جونیجو کاپہلا سیاسی ٹیسٹ تھا‘
حکومت کا ایک ایک فرد جانتا تھا محترمہ واپس آئیں تو مسلم لیگ کی حکومت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی ‘مارچ 1986ء کو صدر جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو بلایا اور انہیں حکم دیا ’’ آپ بے نظیر بھٹو کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہ دیں‘‘ محمد خان جونیجو نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا‘ ان کا کہنا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستانی شہری اور سیاستدان کی حیثیت سے وطن واپس آنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور ہم کسی ضابطے ‘ قانون اور قاعدے کے ذریعے ان سے یہ حق نہیں چھین سکتے‘
جنرل ضیاء الحق محمد خان جونیجو سے اس جواب کی توقع نہیں کرتے تھے چنانچہ دونوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ‘بعدازاں محترمہ نے واپسی کیلئے 10 اپریل 1986ء کے دن کا انتخاب کیا تو کابینہ کے ارکان نے بھی محمد خان جونیجو کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وزیر اعظم کا کہنا تھا ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا چاہیے‘ پاکستان میں آٹھ برس بعد جمہوریت بحال ہوئی ہے اوریہ جمہوریت کا پہلا ٹیسٹ ہے‘ ہمیں اس امتحان پر پورا اترنا چاہیے ‘
8اپریل کو صدر جنرل ضیاء الحق نے بے نظیر بھٹو کے خلاف فوج اور پولیس کو براہ راست استعمال کرنے کا فیصلہ کیا‘ محمد خان جونیجو کو معلوم ہوا تو انہوں نے چاروں صوبوں کے آئی جیز کو بلا کر حکم دیا ’’ اگر آپ لوگوں نے کوئی براہ راست حکم سنا اور اس پر عمل درآمدکیا تو میں آپ کو اسی وقت نوکری سے برخاست کر دوں گا‘‘ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت بھی دے دی لہٰذا 9 اور 10 اپریل کو پورے ملک سے پیپلز پارٹی کے دس لاکھ کارکن لاہور آئے‘
وہ سڑکوں پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کا والہانہ انداز سے استقبال کیا اور اس دن لاہور میں کوئی شیشہ ٹوٹا اور نہ ہی بتی۔وزیراعظم محمد خان جونیجو اور صدر جنرل ضیاء الحق کی اپروچ کا یہ فرق بنیادی طور پر جمہوریت اور آمریت کا فرق ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی آمر کسی شہری کو اپنے سامنے سر اٹھاتے ‘نہیں دیکھ سکتا۔ آمریت کا پہلا وار انسان کے بنیادی حقوق پر ہوتا ہے اور آمروں کی پوری خواہش ہوتی ہے
لوگ ان کی اجازت کے بغیر سانس تک نہ لیں چنانچہ جب بھی کوئی شخص حکومت کی اجازت اور منشا کے بغیر سانس لیتا ہے تو آمر اسے گستاخی سمجھتے ہیں اور اس گستاخی کی سزا دینے کیلئے پوری قوت میدان میں اتار دیتے ہیں۔ آپ فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک پاکستان کے تمام آمروں کی تاریخ کامطالعہ کر لیں‘ آپ کو ان کی نفسیات میں یہ پہلو مشترک ملے گا‘ آپ کو یہ لوگ ہر مخالف اورہر سچی آواز کو دباتے دکھائی دیں گے‘ خواہ یہ آواز محترمہ فاطمہ جناح کی ہو‘ شیخ مجیب الرحمان کی ہو‘ ذوالفقار علی بھٹو کی ہو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہو یاپھر میاں نواز شریف کی۔
دنیا کا ہر آمر جانتا ہے اس نے کبھی عوام کی عدالت میں نہیں جانا‘ اس نے عوام سے ووٹ بھی نہیں مانگنے‘ وہ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آیا ہے اور جب تک اس کے پاس طاقت رہے گی‘ اس وقت تک وہ اقتدار میں رہے گا چنانچہ وہ کبھی مفاد پرست سیاستدانوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے طاقت حاصل کر لیتا ہے کبھی فوج اور پولیس کو اقتدار کی بندربانٹ میں شامل کرکے قوت حاصل کر لیتا ہے‘
وہ کبھی امریکہ جیسی قوتوں کو ملک میں کھل کھیلنے کی اجازت دے دیتا ہے اور کبھی ڈیل کا ڈول ڈال کر اپنا مطلب نکال لیتا ہے اور اگر خدانخواستہ اس کے سارے پتے پٹ جائیں تو وہ جنرل ایوب خان کی طرح حکومت کسی نئے جرنیل کے حوالے کر کے باقی زندگی اپنے گھر یا فارم ہاؤس میں گزار دیتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سیاستدان ہمیشہ عوام کے دلوں سے ہو کر اقتدار تک پہنچتے ہیں۔
سیاستدان جانتے ہیں سیاست دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے اگر آج آپ اقتدار کی چھاؤں میں ہیں تو کل تک یہ چھاؤں ڈھل جائے گی اور آپ کو اپوزیشن کی دھوپ میں بھی بیٹھنا پڑے گا چنانچہ اگر آپ آج مخالفین کے خلاف پولیس‘ ڈنڈے اور آنسو گیس استعمال کرتے ہیں تو کل کلاں کو یہ آنسو گیس‘ یہ ڈنڈے اور یہ پولیس آپ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے لہٰذا اچھے سیاستدان ہمیشہ محمد خان جونیجو کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ وہ سیاسی مقابلے سیاسی میدانوں میں کرتے ہیں۔
آج دس ستمبر کی صبح ہے اور میں ٹیلی ویژن سکرین پر نوازشریف کے خلاف سرکاری مشینری استعمال ہوتے دیکھ رہا ہوں‘ سرکاری حکام میاں نواز شریف کو دھکے دے رہے ہیں‘انہیں گھسیٹ کر جہاز میں ڈالا جارہا ہے جبکہ سڑکوں پر مسلم لیگ کے قائدین اور کارکنوں کو ڈنڈے مارے جا رہے ہیں‘سوال یہ ہے میاں نواز شریف کے خلاف یہ سلوک کس کے دور میں ہو رہا ہے اور اس سلوک کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس ملک کے بے شمار لوگ صدر پرویز مشرف کو اس سلوک کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔
مسلم لیگ کے قائدین اور کارکن بھی صدر پرویز مشرف کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن میں اس سلسلے میں جنرل پرویز مشرف کو ’’بے گناہ‘‘ سمجھتا ہوں‘ صدرجنرل پرویز مشرف ملٹری ڈکٹیٹر ہیں اور ایک ملٹری ڈکٹیٹر ہمیشہ طاقت کی زبان بولتا ہے‘ صدر پرویز مشرف وہی کچھ کر رہے ہیں جو 1986ء میں صدر جنرل ضیاء الحق کرنا چاہتے تھے لیکن 1986اور 2007ء کے اخلاقی معیارات میں بڑا فرق آ چکا ہے اس دور میں ملک پر محمد خان جونیجو جیسے دیانت دار‘ جمہوریت پسند اور ایماندار سیاستدانوں کی حکومت تھی جبکہ آج ملک میں جناب وزیراعظم شوکت عزیز حکمران ہیں اور چودھری شجاعت حسین اور مشاہد حسین حکمران جماعت کے لیڈر ہیں‘
لہٰذا میرا خیال ہے میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والے سلوک کے اصل مجرم چودھری شجاعت حسین‘ سردار فاروق احمد لغاری‘ حامد ناصر چٹھہ‘ منظور احمد وٹو اور چاروں صوبوں کے وزیراعلیٰ ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف سیاستدان ہیں بلکہ یہ سیاسی باریکیوں سے بھی واقف ہیں چنانچہ آج انہیں محمد خان جونیجو جیسی سپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ انہیں آج خود کو سچا‘ کھرا اور جمہوریت پسند سیاستدان ثابت کرنا چاہئے‘ اگر آج چودھری شجاعت حسین ایک جمہوریت پسند سیاستدان ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے تو یوں آج ملک میں جمہوریت کا جنازہ نہ نکلتا۔میاں نواز شریف کی واپسی اور 10 ستمبر 2007ء کا دن ملک میں جمہوریت کا ٹیسٹ تھا لیکن افسوس ہماری حکومت اس ٹیسٹ میں ناکام ہوگئی‘ افسوس چودھری شجاعت مار کھا گئے۔