پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

بنگلہ دیش میں حکومت بدلنے کے بعد اشیا ضرورت سستی ہوگئیں

datetime 10  اگست‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈھاکہ(این این آئی)شیخ حسینہ کی معزولی اور عبوری حکومت کے بعد بنگلہ دیش میں معمولات زندگی بحال ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ چند دنوں میں اشیا کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اشیا کی قیمتوں میں کمی کی بنیادی وجہ پولیس اور حکومتی پارٹی کے رہنماں کی بھتہ خوری رک گئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ 5 اگست کو شیخ حسینہ حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد ملک میں پولیس نہ ہونے کے برابرہے۔ پولیس نے گزشتہ دنوں میں جزوی طور پر کام شروع کردیا ہے۔ عوامی لیگ کے رہنما اور کارکن لاپتا ہیں۔

رشورت لینے والے موجود نہیں ہیں۔ پولیس غائب اور سیاسی پارٹیوں کے رہنما بھی منظر عام پر نہیں ہیں۔ گرافٹی پینٹنگ اب پورے دارالحکومت میں پھیل رہی ہے۔ طلبہ مختلف اپیلوں کے ساتھ دیواروں پر پینٹنگ بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بھتہ خوری اور سنڈیکیٹس سے پاک ملک بنائیں۔ اب سے کوئی بھی سبسکرپشن ادا نہیں کرے گا۔ طلبہ بازار میں گھوم رہے ہیں اور دکانداروں اور گاہکوں سے بات چیت بھی کررہے ہیں۔ اس صورت حال کے باعث مارکیٹ میں اشیا کی قیمتیں گر گئی ہیں۔مدھو باغ میں مائیک کے ذریعے اعلان کیے گئیکہ اب سے کوئی بھی سبسکرپشن (رشوت)ادا نہیں کرے گا اور اگر کوئی بی این پی کے رہنما کا نام لے کر چندہ کا دعوی کرے تو اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا جائے۔

ملک کے تاجروں کا کہنا تھا کہ مصنوعات کو مارکیٹ تک پہچنے میں 4 مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر مرحلے میں اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں بہت سے لوگ شامل ہیں۔ اس میں بہت سے لوگوں کی روزی روٹی شامل ہے لیکن اگر اس نظام کو نہ توڑا گیا تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مصنوعات کی مجموعی قیمتوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں ایک اور اہم عنصر کسٹم ڈیوٹی ہے۔ ایک کلو چینی پر 43 روپے فی کلو ٹیکس ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں میں مختلف پھلوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ پیاز کی درآمدی ڈیوٹی میں بھی وقتا فوقتا اضافہ اور کمی کی جاتی ہے۔چاول کی درآمد پر بھی 60 فیصد سے زیادہ ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی تھی۔ بعد میں اسے کم کر دیا گیا۔ تاجروں اور ماہرین اقتصادیات نے بارہا کہا ہے کہ اگر زیادہ ٹیرف ہوں تو مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنا مشکل ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی کا تقریبا 65 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے آتا ہے۔

حکومت ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹی سے بہت زیادہ ریونیو حاصل کرتی ہے۔ اس فرض کا بوجھ ہر طبقے کے لوگوں پر پڑتا ہے۔ اس معاملے میں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر ریونیو جنریشن کی سمت بدلی جائے، یعنی بالواسطہ ٹیکسوں کی بجائے براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔گزشتہ 30 سالوں میں معیشت کا حجم بڑھ گیا ہے؛ لیکن ادارہ جاتی معیشت ترقی نہیں کر سکی۔ بڑی غیر رسمی معیشت انکم ٹیکس کی وصولی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں وہاں سے نکلنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ انکم ٹیکس کی ادائیگی کے دوران لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ انکم ٹیکس ادا کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے لیے لوگوں کی خدمات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ سب سے اہم چیز مرضی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو باقی تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…