ریاض (این این آئی)سعودی عرب میں قومی اور تاریخی ورثے کی اتھارٹی کی ایک ٹیم کو قصیم صوبے میں واقع آثار قدیمہ کے مقام شعیب الادغم میں حجری اوزار(پتھروں سے بنے اوزار)ملے ہیں۔ ان حجری اوزاروں کا تعلق پتھروں کے قدیم دور کی آشولی تہذیب سے ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق مذکورہ اتھارٹی نے ایک اخبار بیان میں واضح کیا کہ دریافت ہونے والے حجری اوزار پتھروں سے
بنی دستی کلہاڑیوں کی صورت میں ہیں جن کو بہت باریک بینی کے ساتھ نہایت درست شکل میں تیار کیا گیا۔قصیم صوبے میں اس مقام کو مملکت کی سطح پر پتھروں کے دور کے ایک اہم مقام کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ آشولی تہذیب تقریبا 2 ہزار سال پرانی ہے۔ حالیہ دریافت ہونے والی دستی حجری کہاڑیوں کو اس زمانے کے لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کیا کرتے تھے۔ آشولی تہذیب کو حجری اوزاروں کی تیاری کے حوالے سے ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہ اوزار اس زمانے میں نہایت اہم ضرورت شمار ہوتے تھے۔شعیب الادغم میں حجری اوزاروں کی کثرت سے اس مقام پر بسنے والے معاشروں میں بھرپور انسانی کثافت واضح ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا بھی پتہ دیتے ہیں کہ جزیرہ عرب کی آب و ہوا اور ماحول ان لوگوں کے یہاں بسنے اور یہاں دستیاب قدرتی وسائل سے مستفید ہونے کے لیے نہایت موزوں تھا۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آشولی تہذیب کے مقامات(جن میں شعیب الادغم بھی شامل ہے)وادیوں اور نہروں سے آراستہ تھے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ جزیرہ عرب میں بسنے والے لوگ وسیع جغرافیائی فاصلوں تک منتقل ہونے کی قدرت رکھتے تھے۔سعودی قومی اور تاریخی ورثے کی اتھارٹی کے مطابق حالیہ دریافت کے حوالے سے تمام نئی ماحولیاتی اور ثقافتی معلومات کے ذخیرے کو یکجا کر لیا گیا ہے۔ ان معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف زمانوں میں جزیرہ عرب میں ماحولیات میں کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ جزیرہ عرب براعظم افریقا اور بقیہ براعظم ایشیا کے درمیان ما قبل تاریخ زمانوں میں راستوں کا ایک مرکزی سنگم تھا۔ یہ پتھروں کے دور میں بستیوں اور آبادی کاری کا اہم مقام رہا۔ خیال ہے کہ اس زمانے میں ہجرت کرنے والے لوگوں کے لیے گزرنے کے دو مرکزی راستے، آبنائے باب المندب اور جزیرہ نما سینا کی گزر گاہ تھی۔اتھارٹی کے مطابق ان کی ٹیم شعیب الادغم کے مقام پر تحقیق جاری رکھے گی جس سے مزید اہم معلومات سامنے آ سکیں۔ مستقبل میں اس حوالے سے مزید شواہد سے پردہ اٹھے گا کہ جزیرہ عرب پتھروں کے دور میں انسانوں کے بسنے کے لیے ایک اہم ترین مقام رہا۔