جمعرات‬‮ ، 23 جنوری‬‮ 2025 

بھارتی فوج کو کسی بھی علاقہ پر قبضہ کرنے کا اختیار حاصل  مقبوضہ کشمیر میں ایک اور متنازعہ قانون نافذ

datetime 29  جولائی  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی /سرینگر (این این آئی)بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں ایک ایسا نیا متنازعہ قانون نافذ کیا ہے کہ فوج کسی بھی مقام کو اسٹریٹیجک قرار دے کر اس کو اپنے کنٹرول میں لے سکتی ہے۔مقبوصہ کشمیر کی انتظامیہ نے برسوں پرانے اس قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر میں فوج یا پھر نیم فوجی دستوں کو کہیں بھی زمین حاصل کرنے کے لیے وزارت داخلہ سے

اجازت لینی پڑتی تھی۔ اس کے برعکس اب مقبوضہ کشمیر میں اس مرکزی قانون کا اطلاق ہوگا جس میں بری فوج، بحریہ، فضائیہ یا پھر دیگر نیم فوجی دستوں کے لیے حصول اراضی حکومت کا دائرہ اختیار ہے اور وہ اس سلسلے میں جہاں چاہے مناسب معاوضہ دیکر زمین کو اپنے کنٹرول میں کر سکتی ہے۔حکومت نے اس سلسلے میں اراضی حصول کے لیے سن 2013  کے اس مرکزی قانون کا حوالہ دیا ہے جس میں زمین کے بدلے باز آبادکاری کے ساتھ ساتھ معقول معاوضہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس قانون  کے مطابق کسی بھی جگہ کو اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے اہم قرار دینے کا دائرہ اختیار حکومت کا ہے۔  مقبوضہ کشمیر میں بھی اب اس نئے قانون کے تحت حکومت جس جگہ کو بھی دفاعی نکتہ نظر سے اہم سمجھتی ہو اسے بلا روک ٹوک حاصل کر سکتی ہے اور پھر اسے فضائیہ، بحریہ اور دیگر مسلح افواج کے لیے فراہم کر سکتی ہے۔اس سلسلے میں ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ترامیم سے مسلح افواج کی ضروریات کے لیے بعض علاقوں کو اسٹریٹیجک خطہ قرار دینے کی راہ ہموار ہوجائیگی اور ایسے علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں کے نظم و نسق کو خصوصی استثنی حاصل ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد طریقہ کار آسان بنانا ہے تاکہ دفاعی نکتہ نظر سے اہمیت والے انفرااسٹرکچر کو ترقی دی جا سکے۔مقبوضہ کشمیر میں بیشتر حلقے پہلے سے ہی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں موجود بھارتی فوج خطے کی ہزارں ایکڑ زمین پر قابض ہے۔ حکومت کے ان تازہ اقدامات پر کشمیریوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کسی بھی علاقے میں اگر فوج کو کچھ تعمیر کرنا ہوتا تھا تو اسے مقامی انتظامیہ سے اجازت لینی پڑتی تھی لیکن اب کسی بھی جگہ کو اگر اسٹریٹیجک قراردے دیا گیا تو پھر اس پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے علاوہ کسی کا اختیار نہیں رہے گا اور وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے کچھ بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔کشمیر میں انسانی حقوق کے معروف کارکن پرویز امروز کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات پہلے سے بدتر ہیں اور بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ وہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل کر ہی حالات کنٹرول کر سکتی ہے۔ اپنے کنٹرول کے میکنزم کے تحت ہی وہ ریاست کے قوانین میں بہت تیزی سے تبدیلیاں کر ر ہی ہے اور اداروں کو تباہ کرنے میں لگی ہے۔آبادی اور رقبے کے اعتبار سے اس وقت عالمی سطح پر کشمیر میں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔کشمیر کی بیشتر ہند نواز سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالف ہیں اور اس سلسلے میں کئی رہنماؤں کی جانب سے بیان بھی سامنے آئے ہیں۔ تاہم حکومت نے مخالفت کے باوجود اسے منظوری دے دی ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے اسی کے مد نظر یہ قانون نافذ کیا ہے تاکہ فوج کشمیر میں جہاں بھی چاہے فوجی چھاؤنیاں تعمیر کر سکے اور خطے میں زیادہ سے زیادہ  فوج کو تعینات کیا جا سکے۔

موضوعات:



کالم



اسی طرح


بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…