بیجنگ (این این آئی)چین 2022 میں ایک ڈیجیٹل یوآن کرنسی لانا چاہتا ہے جس کا نام ای آر ایم بی رکھا گیا ہے۔ 2022 میں چین جانے والے لوگوں کو اس نئی ڈیجیٹل کرنسی میں خرید و فروخت یا لین دین کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ ایسی کرنسی ہوگی جو نظر نہیں آئے گی اور نہ ہی آپ اسے نوٹوں کی طرح ہاتھ میں پکڑ سکیں گے اور یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے۔
ایسے وقت میں جب دنیا کا ہر ملک کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے چین ڈیجیٹل یوآن پر پائلٹ پروجیکٹ لانچ کرنے میں مصروف ہے۔گذشتہ ماہ چین کے مرکزی بینک پیپلز بینک آف چائنا نے چار بڑے شہروں شینزن، چینگدو، سوزو اور شیان گان میں اس پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔اس پروجیکٹ کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا کچھ حصہ ڈیجیٹل یوآن میں ادا کیا جائے گا۔اس کے علاوہ سٹار بکس اور میکڈونلڈ جیسی 20 نجی کمپنیوں بھی اس تجربے میں حصہ لے رہی ہیں۔اگر یہ کامیاب رہا تو چینی حکومت اسے سنہ 2022 کے سرمائی اولمپکس کے وقت پورے ملک میں جاری کر دے گی۔تاہم ایسا مرحلہ وار کیا جائے گا اور اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔دراصل اس منصوبے پر سنہ 2014 میں کام شروع ہوا تھا۔ چین اس پر عمل درآمد کرنے میں خاصی تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔اس کی تین اہم وجوہات ہوسکتی ہیں: امریکہ کے ساتھ تیز تر ہوتی ہوئی تجارتی جنگ، امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے کورونا وائرس کے سلسلے میں چین پر مسلسل الزام عائد کرنا اور رواں سال فیس بک کا ڈیجیٹل کرنسی لبرا لانے کی تیاری۔
ڈیجیٹل یوآن کے متعارف کرانے کو ایک ایسی چیز کہا جا رہا ہے جو عالمی توازن کو بدل سکتی ہے۔ یہ چین کے حوصلہ مندانہ منصوبوں کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرنا اور اکیسویں صدی میں ایک طاقتور ملک کے طور پر ابھرنا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے کامیاب استعمال سے 10 سے 15 سال میں ایک نیا سیاسی اور معاشی نظام جنم لے سکتا ہے۔