ریاض(این این آئی)امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہاہے کہ ایک دفعہ سلیمانی نے طالبانی سے ہونیوالے مکالمے میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر عراق آکر زلمے خلیل زاد کو مارنا چاہتے ہیں، اگر ہماری سیاسی کوششیں سیاسی اتحاد قائم کرنے کے بجائے نفرت کو جنم دے رہی ہیں تو ہم یقینا صحیح راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔
عراق میں موجود شیعہ عناصر کو منظم کرکے انہیں اقتدار پر فائز کرنے کی ایرانی کوششوں کا مقصد ایران کے خمینی نظام کو عراق میں لانا تھا۔عرب ٹی وی کے مطابق افغان نژاد زلمے خلیل زاد نے سنہ 2017ء میں اپنے سفارتی تجربات پرمشتمل ایک کتاب شائع کی۔کابل سے وائٹ ہائوس تک ہنگامہ خیز دنیا میں سفارت کاری کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں انہوں نے عراق میں ایرانی مداخلت کا پردہ چاک کیا۔اس کتاب میں خلیل زاد نے عراق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ایرانی منصوبوں کے بارے میں دلچسپ معلومات کا انکشاف کیا۔ انہوں نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح ایران کی وفادار عراقی شیعہ جماعتوں نے عراق میں زور پکڑا اور ریاست کو اپنے ہاتھوں میں یرغمال بنایا۔ اس کتاب میں قاسم سلیمانی کا دہشت گردی کی دنیا میں ایک مشہور شخصیت بننے سے قبل ابتدائی دور کا ذکر موجود ہے۔کتاب سے پتا چلتا ہے کہ زلمے خلیل زاد اور قاسم سلیمانی کے درمیان بالواسطہ رابطہ صدام کا تختہ الٹے جانے کے بعد پہلے کرد عراقی صدر جلال طالبانی کے توسط سے ہوا۔ اس وقت سلیمانی کی طرف سے زلمے خلیل زاد کو دھمکی آمیز پیغام دیا گیا تھا۔زلمے خلیل زاد نے اپنی کتاب میں عراق کی سیاست میں ایرانی مداخلت کے تجربات کا احاطہ کیااورلکھا کہ 2005ء کے انتخابات کی تیاری کے دوران تہران نے اپنے شیعہ اتحادیوں کو سیکیورٹی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے اور ملیشیا قائم کرنے پر زور دیا۔
ایران کی قدس فورس نے سیاسی شخصیات اور پرانی حکومت کے سابق افسران کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ ملک میں ہونے والے تشدد میں ایران کا ہاتھ تھا۔ تہران عراق میں اہل تشیع کو سنی عربوں پر غلبہ دلانے کے لیے ہرممکن کوشش کررہا تھا۔ ایرانی پالیسی سے لگتا تھا کہ وہ عراق کو عدم استحکام کی حالت میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ امریکا کو عراق میں الجھا کر رکھا جائے اور اسے ایران کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی کی فرصت نہ ملے۔
ایران نے نہ صرف عراق کے شیعہ عناصر کی معاونت کی اور عسکری گروپ تشکیل دینے میں ان کی مدد کی گئی بلکہ ایران کی طرف سے القاعدہ کے جنگجوئوں کو بھی ایران اور عراق میں آمد ورفت کی اجازت فراہم کی۔ عراق میں شیعہ مذہبی سیاسی گروپوں کو مضبوط کیا گیا جنہیں صدام حسین کے دور میں بری طرح کچل دیا گیا تھا۔زلمے خلیل زاد مزید لکھتے ہیں کہ میں شیعہ عربوں کو ایران کا متبادل دینا چاہتا تھا۔ ایک سفیر کی حیثیت سے میں نے عراق کے شیعہ اور سنی لیڈروں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی۔
میں نے صلح پسند سنی باغیوں کے ساتھ بات چیت ،متوازن عراقی سیکیورٹی فورسز کی تشکیل ، اور عراقی شیعہ عربوں کو سنیوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی ضرورت زور دیا۔تاہم زلمے خلیل زادکی بغداد میں تہران کی مداخلت کم کرنے یا ختم کرنے کی کوششوں کو قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی نے آگے نہ بڑھنے دیا۔ ایران ہرصورت میں عراق کو افراتفری کی حالت میں رکھنا چاہتا تھا چاہے اس کے لیے اسے اپنے شیعہ عناصر ہی کا خون کیوں نہ بہانہ پڑے۔انہوں نے کہا کہ ایرانیوں نے میرے کھیل کو سمجھ لیا۔ دسمبر کے انتخابات کے فورابعد جلال طالبانی نے قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی سے ملاقات کی۔
سلیمانی ایران کے ذریعہ غیر روایتی جنگ اور فوجی کارروائیوں کا ذمہ دار تھا۔ سلیمانی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ طالبانی نے عراق اور مخصوص عراقی گروہوں کے لیے خطرناک نتائج کے بارے میں متنبہ کیا ہے اگر وہ میرے منصوبے میں تعاون نہیں کرتے ہیں تو عراق میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ سلیمانی دھمکی آمیز لہجے کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ خلیل زاد دْنیا کا بدترین شخص ہے۔ سلیمانی نے طالبانی سے ہونیوالے مکالمے میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر عراق آکر اس خلیل زاد کو مارنا چاہتے ہیں۔
اگر ہماری سیاسی کوششیں سیاسی اتحاد قائم کرنے کے بجائے نفرت کو جنم دے رہی ہیں تو ہم یقینا صحیح راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔زاد نے ایرانی حکومت کے عہدیداروں کو مذاق اور فریب دہندگان کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا لکھا کہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ ایرانی عراق کے شیعہ عربوں کے ساتھ ایسے سلوک کررہے تھے کہ وقت آنے پر انہیں قربانی کا بکرا بنایا جاسکے۔ میں ایران کے قریب سمجھے جانے والے شیعہ رہ نماؤں سے کبھی کبھی کہا کرتا تھا کہ تہران عراق کو کھنڈرات میں بدلنا چاہتا ہے تاکہ آسانی سے اس پر قابو پاسکے۔
ان میں سے بعض رہ نما خفیہ طور پر میرے نقطہ نظر کی حمایت کر رہے تھے۔2005ء کے انتخابات میں امریکا عراق میں ایسی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا جس میں شیعہ سنی کے اتحاد کی راہ ہموار ہوسکے۔ انتخابات میں 275 کیایوان میں 128 نشستیں شیعہ گروپ جیت چکے تھے۔ ایران نے فورا مداخلت شروع کردی اور اپنے من پسند لوگوں کو اقتدار دلانے کے لئے خفیہ طور پر جوڑ توڑ شروع کردی تھی۔ ایران نے ایک طرف کردوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف عرب سنیوں کوبہلانے کی کوشش کی گئی۔
اس دوران ایران نے عراق میں زلمے خلیل زاد کی سیاسی اتحاد کی کوششوں پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔زلمے خلیل زاد نے اپنی کتاب میں لکھا کہ عراق میں موجود شیعہ عناصر کو منظم کرکے انہیں اقتدار پر فائز کرنے کی ایرانی کوششوں کا مقصد ایران کے خمینی نظام کو عراق میں لانا تھا۔عراق میں نئے دستور کا مسودہ تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس کی قیادت اعلیٰ اسلامی انقلاب کونسل کے ایک مندوب ھمام حمودی کو سونپی گئی۔
ھمام حمودی نے عراق کے تمام شیعہ سیاسی گروپوں کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے، الدعوہ اور مقتدیٰ الصدر کی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی تاکہ عراق میں ایران کی طرز کا نظام لایا جاسکے جس میں صرف شیعہ سیاسی قوتوں کا غلبہ ہو۔زلمے لکھتے ہیں کہ جب عراقی دستور تیار ہوگیا اور ایک اجلاس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تو مجھے ایسے لگا کہ میں ایران میں آگیا ہوں اور میری اطراف میں سب ایرانی شیعہ مذہبی لیڈر ہیں۔ اس موقع پران لوگوں نے نعرہ تکبیر لگانے کے ساتھ ایران زندہ باد کا بھی نعرہ لگایا۔ انہوں نے ایسے اپنے ہاتھ بلند کیے جیسے ایرانی پارلیمنٹ میں کیے جاتے ہیں۔