واشنگٹن (اے ایف پی) بھارتی وزیراعظم نریندی مودی کے ہندو اتوا پر مبنی نظریے کے باعث جہاں بھارت میں شدید تنقید و مشکلات کاسامنا ہے، وہیں ان نظریات کے باعث انہیں 20 سال میں پہلی بار شدید امریکی مزاحمت کابھی سامنا ہے۔
بدھ کو بھارتی وزیر دفاع اور وزیرخارجہ واشنگٹن میں امریکی حکام سے مذاکرات کریں گے جس میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے کے لیے بھارتی وزرا کوششیں کریں گے۔بھارت کو 20 سال سے امریکا میں نہایت اہمیت دی جاتی رہی ہے اور سیاست دان دونوں ممالک کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں رہتے تھے تاہم مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت ایک غیر متوقع پوزیشن میں آ گیا جہاں پر امریکا اسکی سرزنش بھی کر رہا ہے کچھ مبصرین کو توقع ہے کہ تعلقات میں اور کمی ہو جائے گی۔امریکا بھارت کی انسانی حقوق کی صورتحال پر نقطہ چینی کر رہا ہے، متنازع سٹیزن ایکٹ پر امریکی محکمہ خارجہ کےترجمان نے کہا تھا کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھے۔امریکی نمائندہ اور ڈیموکریٹک رکن فرامیلا جے پال نے ایک مجوزہ قرارداد میں بھارت سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو آزادی دی جائے اور وہاں سے پابندی ہٹائی جائیں جبکہ انسانی حقوق کے مبصرین اور غیرملکی صحافیوں کو دورے کی اجازت دی جائے۔امریکی کمیشن برائےبین الاقوامی مذہبی آزادی نے انتہائی تنقید کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کردیا، کمیشن نے (جو صرف امریکی حکومت کو تجویز دے سکتا ہے پالیسی مرتب کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ) شہریت بل کو غلط سمت میں ایک خطرناک اقدام بھی قرار دیا۔
دوسری جانب بھارت نے ڈھٹائی کے ساتھ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ کمیشن اس فیصلے پر متعصب ہورہا ہےجس کا اسے انتہائی کم علم ہے۔ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے جنوبی ایشیائی ماہر مائیکل کوگلمین نے کہا ہےکہ مودی کےاقدام سےسخت مایوسی پائی جاتی ہے کیوں کہ بھارت سیکولرازم، جمہوریت اور پلورلازم کی اپنی بنیادی روایت کوظاہری طور پر ختم کر رہا ہے۔