سرینگر(این این آئی)مقبوضہ کشمیر میں 5اگست سے جاری بھارتی فوجی محاصرے اور انٹرنیٹ کی بندش کے باعث وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پیر کو مسلسل 85ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق علاقے میں سخت پابندیاں نافذ جبکہ انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائل فون سروس معطل ہے۔جموں وکشمیر پر بھارتی قبضے اور حالیہ اقدامات کے خلاف وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر غیرعلانیہ سول نافرمانی جاری ہے۔
دکانداروں نے اپنی دکانیں بند کررکھی ہیں، طلباء سکولوں سے غائب جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے۔ قابض انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہونے کے اپنے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے ضلع بڈگام کے علاقے چرار شریف میں لوگوں کو درگاہ پر منعقدہ شبانہ عبادت میں شرکت سے روک دیا ہے۔ بھارتی فورسز نے معروف صوفی بزرگ شیخ نورالدین ولی کی درگاہ پر سالانہ دعائیہ مجلس میں شرکت کے لیے وادی کشمیر کے دوردراز علاقوں سے آنے والے عقیدت مندوں کو درگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ قابض انتظامیہ نے سالانہ تقریب سے ایک دن پہلے ہی علاقے کو بند کردیا تھا۔سوپور بس اسٹینڈکے قریب ایک دستی بم کے حملے میں کم سے کم15 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے گھر گھر تلاشی کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ادھر 27اکتوبر کو جب بھارت نے جموں وکشمیر پر غیر قانونی طورپر قبضہ کرلیاتھا کے سلسلے میں منائے جانیوالے یوم سیاہ کے موقع پر یورپ کے دو بڑے دارلحکومتوں لندن اور برسلز میں بھارت مخالف مظاہرے کئے گئے۔ لندن کی 10ڈاؤننگ اسٹریٹ پر احتجاجی مظاہرے کے شرکاء نے وزیر اعظم کے دفتر میں ایک یادداشت پیش کی جس میں برطانوی حکومت پر کشمیری عوام کی مشکلات دور کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ معاملہ اٹھانے پر زوردیاگیا۔کشمیر کونسل یورپی یونین کے زیر اہتمام برسلز میں بھارتی سفارتخانے کے باہر ایک اور احتجاجی مظاہرے میں بھارتی حکومت سے پابندیاں اٹھانے، کشمیر سے فوجی انخلاء، اور کشمیریوں کو انکا حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کیاگیا۔دریں اثناء یورپی اراکین پارلیمنٹ کا 28رکنی وفد کل مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرے گا۔ یورپی رکن پارلیمنٹ بی این ڈن(BN Dunn)نے جو وفد کا حصہ ہیں نئی دلی میں ایک ٹویٹ میں کہاہے کہ وفد مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتحال کا جائزہ اور مقامی لوگوں سئے بات کرنا چاہتا ہے۔