سرینگر (این این آئی) مقبوضہ کشمیر میں لوگوں نے غیر قانونی بھارتی قبضے اور بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف وسطی، شمالی اور جنوبی علاقوں میں زبردست مظاہرے کیے۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق سرینگر، بڈگام، گاندربل، اسلام آباد، پلوامہ، کولگام، شوپیاں، بانڈی پورہ، بارھمولہ، کپواڑہ اور دیگر علاقوں میں لوگوں نے نماز جمعہ کے فوراً بعد سڑکوں پر آکر مظاہرے کیے۔
مظاہرین نے آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ بھارتی فوجیوں او رپولیس اہلکاروں نے مختلف علاقوں میں مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغے اور پیلٹ چلائے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ قابض انتظامیہ نے سرینگر، گاندر بل، اسلام آباد، اونتی پورہ، سوپور، ہندواڑہ اور دیگر علاقوں میں پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔ قابض انتظامیہ نے لوگوں کو سرینگر کی تاریخی جامع مسجد، درگاہ حضرت بل، دستگیر صاحب اور چرار شریف سمیت مقبوضہ کی تمام بڑی مساجد میں پانچ اگست سے جمعہ کومسلسل آٹھویں ہفتے جمعہ کی نمازادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ لوگوں نے گزشتہ روز بٹہ مالو میں بھی بھارت مخالف مظاہرہ کیا جبکہ آنچار سرینگر میں بھی ایک مشعل بردار جلوس نکالا گیا۔ آنچار بھارتی فورسز کے لیے ”ممنوعہ علاقہ“ بن چکا ہے۔دریں اثنا مقبوضہ وادی میں جمعہ کو54ویں روز بھی نظام زندگی مفلوج رہا۔ دکانیں، بازار، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بند تھی۔ مقبوضہ وادی کشمیراور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں موبائل فون،انٹرنیٹ سروسز اور ٹیلی ویژن نشریات بھی بند ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے شوپیاں، رام بن، کشتواڑ اور سامبا اضلاع سے محاصرے اور تلاشی کی جاری کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کے کارکن محمد احسن اونتو اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما محمد یاسین عطائی سمیت ایک درجن افراد گرفتار کر لیے۔
انتظامیہ نے نیشنل کانفرنس کے رکن محمد مقبول یتو پر کالا قانون ”پبلک سیفٹی ایکٹ“لاگو کر دیا ہے۔ ضلع بارہمولہ کے ایک گاؤں میں بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کی ایک گاڑی نے ایک کار کر ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں دو خواتین سمیت تین افراد زخمی ہو گئے۔ واقعے کے بعد مشتعل لوگوں نے بی ایس ایف کی گاڑی نذر آتش کر دی۔ ڈوڈہ قصبے میں بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اہلکار نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے مرکزی دروازے پر دوران ڈیوٹی اپنی سروس رائفل سے خود کشی کر لی۔ اس تازہ واقعے سے جنوری 2007سے مقبوضہ علاقے میں خود کشی کرنے والے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعداد بڑھ کر 441`ہوگئی۔
ادھر ذرائع ابلاغ کی اطلاعت کے مطابق مقبوضہ وادی کشمیر میں ذرائع مواصلات کی مسلسل بندش کی وجہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں سے وابستہ کم از کم تین ہزار ملازمین کا روز گار خطرے میں پڑ چکا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا کہ پانچ اگست کے بعدوادی کشمیر میں آئی ٹی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنے والے 46ہزار لوگ نوکریوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہوٹلوں میں کام کرنے والے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور چار ہزار ملازمیں نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پشاور میں کشمیر کمیٹی کے زیر اہتمام ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔ ریلی سے دیگر کے علاوہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں شیخ عبدالمتین اور امتیا ز احمد وانی نے خطاب کیا۔