رام اللہ (این این آئی)فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی طرف سے رواں سال کے دوران عدلیہ کے حوالے سے کئے گئے بعض اعلانات اور فیصلوں پر ججوں اور عدلیہ کے ملازمین کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔فلسطینی سپریم کورٹ کے متعدد سینئر ججوں کی
طرف سے قانونی پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر عباس کے فیصلوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر عباس کی طرف سے عدلیہ کے حوالے سے کئے گئے اقدامات ان کے حقوق کے قتل عام کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ججوں عبداللہ غزلان، ایمان ناصرالدین، خلیل الصیاد، عدنان الشعبی، حلمی الکخن، محمد مسلم، محمد الحاج یقاسین، بولیت متری اور دیگر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم بار بار عدالتی اصلاحات کی بات کرتے رہے ہیں مگر ہماری بات نہیں سنی گئی، اب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے من مانی اصلاحات متعارف کرائی ہیں جن میں ججوں کے حقوق کی نفی کی گئی ہے۔متاثرہ ججوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے ایک نئی عبوری عدالتی کونسل تشکیل دے کر سپریم کورٹ اور عدلیہ کے حوالے سے اپنے اختیارات اور دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے۔ خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے حال ہی میں اپنے ایک صدارتی حکم نامے میں 52 ججوں کو قبل از وقت ریٹائر کر دیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل تحلیل کر دی گئی اور تمام عدالتی کمیٹیاں، اپیل عدالتیں ختم کردی گئیں اور ان کی جگہ ایک نئی عبوری کونسل قائم کی گئی ہے۔ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال کر دی گئی ہے۔ بظاہر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سیاس اقدام کو عدالتی اصلاحات کا نام دیا گیا ہے مگر درحقیقت ان اقدمات سے عدلیہ کے ملازمین اور جج حضرات کے بنیادی حقوق پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔