نیویارک(اے این این ) امریکی اخبار نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم عروج پر ہیں جہاں تعلیم یافتہ افراد کو بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا گیا ہے۔امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق دو روز قبل کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر محمد رفیع اچانک لاپتہ ہوگئے جس کے بعد ان کی لاش ملی تاہم استاد کی موت پر پڑھے لکھے تمام افراد احتجاج میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
امریکی اخبار کے مطابق 31 برس کے پروفیسر رفیع نے کشمیر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی جن کے سامنے شاندار مستقبل تھا لیکن انہوں نے بھارت کے خلاف مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔رپورٹ کے مطابق پروفیسر تمام طلبہ کے پسندیدہ استاد تھے اور وہ ایسے دانشور تھے جنہوں نے صارفین پر نمایاں تحقیق کی تھی۔امریکی اخبار نے انکشاف کیا کہ پروفیسر کی درس و تدریس کے شعبے سے مزاحمتی تحریک میں شمولیت نئے رجحان کا حصہ بنی۔پروفیسر محمد رفیع کے علاوہ انجینئر عیسی بھی مزاحمتی تحریک میں شامل تھے جو آخری سیمسٹر میں لاپتہ ہوئے اور چند ماہ بعد مبینہ مقابلے میں مارے گئے۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ‘کشمیری انجینئر کے قتل کے بعد نوجوان اپنے والدین سے پوچھتے ہیں کہ اسلحہ کے مقابلے میں ڈگریوں کا کیا فائدہ’۔امریکی اخبار کی تحقیق کے مطابق 2008 کے بعد سے مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جب کہ چند برس پہلے تک کمزور ہوتی مسلح جدوجہد میں نئی توانائی آگئی ہے۔2013 میں مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد صرف 16 فیصد تھی جب کہ 2017 کے مقابلے میں مزاحمتی تحریک میں نوجوانوں کی شرکت 2018 میں 52 فیصد رہی۔
امریکی اخبار کے مطابق 2018 میں 191 کشمیری نوجوانوں نے مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی، محققین کے مطابق کشمیر میں داخلی استحکام اور گورننس کو یکسر انداز کیا جارہا ہے جس کے باعث کشمیری کہتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر روزانہ تضحیک آمیز بھارتی رویہ اشتعال کی وجہ ہے۔امریکی اخبار کے مطابق بھارت نے پچھلے برس سے غیر ملکی صحافیوں پر کشمیر میں رپورٹنگ کی پابندی لگا دی ہے یہاں تک کہ واشنگٹن پوسٹ کو سری نگر تک محدود رہنے اور بھارت مخالف افراد سے نہ ملنے کی شرط پر اجازت دی گئی ہے۔محقق کے مطابق سوشل میڈیا کے سبب پڑھا لکھا طبقہ مزاحمتی تحریک میں زیادہ شامل ہورہا ہے تاہم سینئیر بھارتی اہلکار نے امریکی اخبار سے اعتراف کیا کہ نوجوانوں کا مزاحمتی تحریک میں شامل ہونا پریشان کن ہے۔