تہران (این این آئی)ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد ایرانی ریاست کے اہم اداروں کے درمیان باہمی رساکشی اور اختلافات بھی شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق دومئی 2018ء کو امریکا کے ایران کیساتھ طے پائے معاہدے سے علیحدگی
کے بعد حکومت اور ایرانی رجیم کے کئی ادارے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہیں۔ خاص طور پر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مقرب انٹیلی جنس اداروں اور سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے صدر حسن روحانی پر سخت تنقید سامنے آئی ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس ادارے اور پاسداران انقلاب حسن روحانی پر ایک ناکام جوہری معاہدہ کرنے اور ایران کی مشکلات میں اضافے کا سبب بننے کے الزامات عاید کرتے ہیں۔تین ماہ قبل ایرانی پارلیمنٹ کے سخت گیررکن جواد کریمی قدوسی نے انکشاف کیا تھا کہ انٹیلی جنس ادارے صدر حسن روحانی کی جاسوسی کرتے ہیں۔ ان کے موبائل فون پر ہونے والی گفتگو کی مانیٹرنگ کی جاتی اور اسے ٹیپ کیا جاتا ہے۔ ایرانی محکمہ دفاع کے ایک دوسرے عہدیدار غلام رضا جلالی نے بھی کہا ہے کہ صدر حسن روحانی کے موبائل فون کی جاسوسی کی جاتی ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ آیا صدر کی جاسوسی کون کررہا ہے۔خیال رے کہ غلام رضا جلالی کی زیرانتظام تنظیم دفاع سلبی ایران کی مسلح افواج کے زیرانتظام کام کرتی ہے اور اسے براہ راست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک حادثے کے بعد صدر حسن روحانی کے موبائل فون کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ قبل ازیں 23 جولائی کو رکن پارلیمنٹ جواد کریمی قدوسی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاسداران انقلان اورانٹیلی جنس ادارے صدر حسن روحانی کے موبائل فون اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔