برسلز(انٹرنیشنل ڈیسک)یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر ژاں فرانسوا کوتاں نے کہا ہے کہ یورپی یونین پاکستان میں جمہوری استحکام، معاشی خوشحالی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد پر تیار ہے۔جرمن ریڈیوکو دیئے گئے ایک انٹرویومیں یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر ژاں فرانسوا کوتاں نے کہا کہ یورپی یونین ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں بھی پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایف اے ٹی ایف کے بیشتر اراکان کی طرح یورپی یونین بھی اس تنظیم کی ایک مکمل رکن ہے۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے اور منی لانڈرنگ کے خاتمے جیسے اہداف پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور عملی کاوشوں میں شریک ہیں۔ لہذا یورپی یونین فطری طور پر اس حوالے سے ہونے والی ہر پیش رفت میں، اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے مطابق، اپنی بہترین کوششوں کے ذریعے حصہ ڈالی گی۔ ہم ایف اے ٹی ایف کے عملی منصوبوں اور دائرہ کار میں رہتے ہوئے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان کی نئی حکومت کی خصوصی معاونت کے لیے تیار ہیں۔ اگر اس نوعیت کے باہمی تعاون پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو ہمیں اس شراکت کو اس طرح طے کرنا ہو گا کہ پاکستان کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہوں۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ یورپی یونین اپنے اعلیٰ سطحی نمائندہ برائے خارجہ امور اور ترجمان سکیورٹی پالیسی کے بیان کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے لیکن ہم پاکستان جیسے اہم اتحادی ملکوں کے ساتھ اپنے دیرپا تعلقات کے حوالے سے الزامات پر انحصار نہیں کرتے۔ اگر عملی شراکت کے اچھے ماحول میں ماہرین کو کام کرنے کا موقع ملے گا تو ہی ہمارا کام موثر اور معتبر ہو گا۔ یورپی یونین کے الیکشن مبصرین کے گزشتہ وفود کے بہتر تجربات اور انتخابی اصلاحات بل 2017 میں بیرونی مبصرین کو قانونی تحفظ ملنے کے باوجود، بدقسمتی سے بعض بیوروکریٹک وجوہات کی بنا پر ہمارا وفد بہت تاخیر سے پاکستان پہنچ سکا۔ یورپی یونین کے الیکشن مبصرین دنیا میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں، کبھی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرتے جو صرف مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے اور وہ کبھی قبل از انتخابات معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔
یورپی یونین کے مبصر مشن کے عبوری بیان اور پھر حتمی رپورٹ کو حوالے کی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کو یورپی یونین کا ایک جامع تعاون حاصل ہے جو کئی باہم مربوط معاملات پر محیط ہے اور انہیں ہم آہنگ کرتا ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ (جی ایس پی پلس) میں شمولیت کی درخواست کر کے پاکستان نے چار برسوں تک درآمدی محصولات کے
بغیر یورپی منڈی تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے انسانی حقوق کی ستائیس دستاویزات پرعمل درآمد کا وعدہ بھی کیا ہے۔یہ دو طرفہ تعلق پاکستان کی اندرون ملک سیاست کے نشیب و فراز سے ماورا ہے۔ نئی حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس معاہدہ کو جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس معاہدہ کے سبب پاکستانی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ ہوا۔
اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی عالمی قانونی ذمہ داریوں کے حوالے سے مثبت پیش رفت کی ہے، اگرچہ ابھی مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ ہم باہمی تعاون کے طے شدہ دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان سے سزائے موت پر پابندی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ جیسے معاملات پر مکالمہ جاری رکھیں گے۔ یہ معاملات ان انسانی قدروں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن کی ترویج کے لیے ہم کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم دنیا بھر میں انتہا پسند نظریات کے فروغ پر پریشان ہیں۔ ہم ان نظریات سے بر سر پیکار ہیں جو تشدد، منافرت، تعصب اور مقاطعہ کا درس دیتے ہیں۔ یہ نظریات نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہمارے اپنے خطے میں بھی ناقابل قبول تشدد کا سبب بنتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی عوام کے جمہوریت پر اعتماد اور عزم کو سراہتا ہوں جو انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دن ہونے والے دہشت گردی کے اندوہناک واقعات کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلے۔
یورپی یونین فطری طور پر ان انتہا پسند سیاسی بیانیوں سے پریشان ہے جنہوں نے پاکستان کا سیاسی ماحول داغ دار کر دیا ہے۔ ان جماعتوں اور افراد کو حاصل ہونے والے ووٹوں پر مبنی اعداد وشمار سے صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پریشان کن حقائق پاکستان اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کے تمام تر راہ نما اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی اعلی عدلیہ اور الیکشن کمشن کے اختیار و استعداد پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو نمایاں کریں گے کہ ایسے نظریات اور بیانیوں کی آئین پاکستان کے ساتھ مطابقت ممکن نہیں۔