اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) یوں تو شام میں جاری خانہ جنگی اور بشار الاسد کی درندہ صفت فوج کی بربریت نے لاکھوں شامیوں کو بے گھر کر دیا ہے اور شام میں جاری لڑائی میں اب تک لاکھوں افراد جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے اور مرد شامل ہیں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بشار الاسد اور روسی اتحاد کے طیاروں نے شام کے مختلف شہروں میں شہری آبادیوں پر خوفناک بمباری کی
اور اب شام تاریخی شہر الغوطہ کے مشرقی حصے پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ فضا سے ہوتی بموں کی برسات نے غوطہ شہر کے بچوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے ۔ بشار الاسد کی فوج کرد باغیوں سے شہر کا قبضہ چھڑانے کیلئے اپنے ہی شہریوں کو ہزاروں پائونڈ وزنی بموں کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ لاکھوں شہری شہر میں پھنسے ہوئے اور فضا سے اچانک نمودار ہونی والی اپنی موت کے انتظار میں تباہ حال غوطہ شہر میں محبوس ہو چکے ہیں۔ اسی دوران غوطہ شہر سے دو معصوم بہنوں کی ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کو دیکھ کر ہر آنکھ نم ہو گئی ہے۔ غیر ملکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 8سالہ عالا اور 11سالہ نور مشرقی الغوطة میں پھنس کر رہ جانے والے لاکھوں عام شہریوں میں سے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز بمباری سے تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے پر کھڑے ہو کر ایک ویڈیو بنائی ہے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہے جس میں انہوں نے روتے ہوئے پوری دنیا سے مدد کی درخواست کی ہے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ننھی عالا بمباری سے زخمی ہوتی ہے۔ اس کی بائیں آنکھ کے قریب گال پر ایک گہرا زخم آیا ہوتا ہے جس سے خون بہہ رہا ہوتا ہے اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔اس کے پاس کھڑی نورکی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہے ”دنیا والو!خدا کے لیے ہماری مدد کرو۔“
کچھ دیر بعد ان بہنوں نے ایک اور ویڈیو پوسٹ کی جس میں انہوں نے بتایا کہ ”ایک ماہ قبل بمباری میں ہمارا گھر تباہ ہو گیا تھا۔ اب ہم بے گھر ہیں اور ملبے کا ڈھیر بنی عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور ان پر بھی بم برسائے جا رہے ہیں۔“ اس ویڈیو میں بھی نور روتے ہوئے دنیا سے درخواست کرتی ہے کہ ”الغوطة کو بچا لو۔“ ایک اور ویڈیو میں ننھی عالا اپنی گڑیا کو سینے سے لگائے دنیا سے
معصوم سا سوال پوچھتی ہے کہ ”یہ بمباری کیوں نہیں رک رہی؟ اور کتنے بچوں کو مرنا پڑے گا؟ پلیز، پلیز الغوطة کے بچوں کو بچا لو، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔“ ٹوئٹر پر ان معصوم بچیوں کی ویڈیوز نام نہاد عالمی رہنماؤں کے ضمیر جھنجھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں تاہم دنیا بھر میں موجود باضمیر لوگوں کا کہنا ہے کہ چند سالوں بعد شاید تاریخ میں انسانیت کے خلاف یہ مظالم اور دنیا کی خاموشی سیاہ ترین باب کے طور پر جانی جائے گی۔