برسلز (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان میں موجود نیٹو افواج نے افغان طالبان کی جانب سے ملک میں جاری جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ افغان طالبان نے امریکی عوام اور کانگریس ارکان کے نام ایک کھلے خط میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ دھراتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری ہونے والے اس خط میں امریکی عوام اور ‘امن پسند’ کانگریس کے ارکان کو مخطاب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی حکومت پر زور ڈالیں کے وہ پرامن ذرائع سے افغانستان کے مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ افغان طالبان کے اس خط کے جواب میں نیٹو نے کہا ہے کہ طالبان کے عام شہریوں پر حالیہ حملے ان کے بیان سے زیادہ وزن رکھتے ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ مذاکرات کے لیے مخلص ہیں۔بر طانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی جرنیلوں کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ ان کے افغان مسلح افواج کی مدد میں کیے گئے فضائی حملوں سے طالبان کے ساتھ فوجی تعطل ختم ہو گا اور شدت پسندوں کو مذاکراتی میز پر لانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال افغانستان میں بمباری کے نتیجے میں تقریباً 2300 عام شہری یا تو مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برسوں کے مقابلے میں سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ سنہ 2009 سے یہ اعداد و شمار جمع کر رہی ہے اور ان میں مئی میں دارالحکومت کابل میں ہونے والا ٹرک بم حملہ بھی شامل ہے جس میں 90 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً پانچ سو زخمی ہو گئے تھے۔تاہم حال ہی میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے، جس کی بنیادی وجہ زمینی لڑائی میں کمی ہے۔ ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ چین اور ترکمانستان کی سرحدوں کے قریب بمباری سے خطے کے ملکوں کے ساتھ کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔افغانستان کے دارلحکومت کابل میں گزشتہ چند ماہ میں طالبان اور دولت اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم نے کئی بڑی بڑی کارروائیاں کی ہیں جن میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو ئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ افغانستان کے ستر فیصد علاقے پر طالبان کی عملداری قائم ہے۔