دمشق(آئی این پی)شامی صدر بشار الاسد نے ترک فوج کی طرف سے شامی علاقے عفرین میں کرد باغیوں کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہیہ عسکری کارروائی دہشت گردی کے تعاون کے مترادف ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کا ترک فوج کی جانب سے شامی علاقے عفرین میں کرد باغیوں کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن پر کہنا تھاکہ یہ عسکری کارروائی دہشت گردی کے تعاون کے مترادف ہے۔
ترک فوج اتوار کی صبح شامی باغیوں کی مدد سے عفرین میں داخل ہو گئی۔ شامی صدر کا الزام ہے کہ ترکی شام میں دہشت گردوں کو تعاون فراہم کرتا ہے۔ ادھر ترکی نے کہا ہے کہ ملکی سالمیت کی خاطر شام میں یہ کارروائی ناگزیر تھی۔علاوہ ازیں ترکی کی فوج نے کہاہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے شام کے شمال میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک کرد ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ترکی شام کے علاقے عفرین سے کرد جنگجوؤں کا انخلا چاہتا ہے جو کہ سنہ 2012 سے کردوں کے کنٹرول میں ہے۔واضح رہے کہ ترکی نے اس سے پہلے کردوں کے خلاف ایک مکمل فوجی آپریشن کی دھمکی بھی دی تھی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایک بار پھر کرد افواج کی شام میں موجودگی کی مذمت کرتے ہوئے اسے علیحدگی پسند کرد تنظیم پی کے کے کا لازمی جز قرار دیا۔ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق شام کے علاقے عفرین پر صوبے ہیٹے سے بمباری کی گئی۔ترکی کے وزیرِ دفاع نے کہا کہ شام کے شمال میں کرد ملیشیا کے خلاف بمباری عفرین پر چڑھائی کرنے کے منصوبہ کا آغاز ہے۔ادھر شام نے ترکی کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی پر ترکی کے طیاروں کو مار گرانے کی دھمکی دی ہے۔ادھر وائی پی جی کا کہنا تھا کہ عفرین میں رات بھر میں 70 گولے داغے گئے۔عفرین میں سیئرین ڈیموکریٹک کونسل کے رہنما نے بتایا کہ عفرین پر کی جانے والی گولہ باری کے بعد شہری محفوظ پناہ تلاش کرتے رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب عفرین پر گولہ باری جاری تھی تو اس وقت عام شہری، خواتین اور بچے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے یہاں تک کہ وہ گولہ باری ختم ہونے تک محفوظ پناہ گاہوں کو تلاش کرتے رہے۔دریں اثناء ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے عفرین میں کرد ملیشیا کے خلاف فوجی مداخلت کے حوالے سے امریکی اور روسی وزراء خارجہ نے ٹیلیفون پر بات چیت کی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق روسی وزیرخارجہ سیرگی لافروف نے ٹیلی فون پر اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے بات چیت کی۔ اس موقع پر دونوں رہ نماؤں نے ترک فوج کی عفرین میں کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی اور اس کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا۔
روسی وزارت خارجہ کی ویب سائیٹ پر پوسٹ ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیرخارجہ لافروف نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے بات چیت کی۔ دونوں رہ نماؤں کے درمیان شام کی تازہ ترین صورت حال بالخصوص شمالی شام میں قیام امن اور ترکی کی فوجی مداخلت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں رہ نماؤں نے شام کے تنازع کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی امن مساعی تیز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جنوری کے آخر میں روسی شہر سوچی میں شام کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے سے اتفاق کیا۔قبل ازیں روس نے شمالی شام میں ترک فوج کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ دوسری جانب ترکی کالعدم کردستان لیبر پارٹی کے مقرب شامی عسکری گروپوں پروٹیکشن یونٹس اور ڈیموکریٹک فورسز کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔