اسلام آباد (این این آئی)نشاندہی کے باوجود سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کیخلاف بینرز لگنے کیخلاف کسی قسم کا ایکشن نہ لینے پر سینیٹ میں پاک سوئس فرینڈ شپ گروپ کی سرگرمیوں کو معطل کرنے کی منظوری ،چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کرنل (ر) سید طاہر مشہدی کی پمز اور فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال میں سہولیات کے فقدان پر تحریک التواء بحث کیلئے منظور کرلی۔
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال اسلام آباد میں مریضوں کے لئے بستروں اور دیگر میڈیکل سہولیات کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے مریض دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پمز میں مریض راہداریوں میں پڑے ہوتے ہیں۔اجلاس کے دور ان سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے اپنے توجہ مبذول نوٹس میں کہا کہ ستمبر 2017ء کے آخر میں نیشنل سیونگز کے آٹومیشن پروجیکٹ فیز II کی بندش کی وجہ سے منصوبے میں مصروف 300 ملازمین جو متعلقہ شعبے میں مہارت رکھتے ہیں، اپنی ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ ملازمین کی خدمات اس منصوبے کے فیز III میں جس کی مستقبل قریب میں شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے، میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔اجلاس کے دور ان وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ قومی بچت سکیم نے اپنی تمام شاخوں کی آٹو میشن کر دی ہے۔ پہلے مرحلے میں 182 شاخوں میں آٹومیشن کی گئی ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید 142 شاخیں خود کار سسٹم پر لائی جائیں گی۔ فیز III کا پی سی ون منظور ہو گیا ہے جس کے تحت دسمبر 2020ء تک مزید 150 شاخیں خودکار سسٹم میں لائی جائیں گی۔ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین دوبارہ اپلائی کریں، انہیں ترجیح دی جائے گی۔
اجلاس کے دور ان سینٹ نے پاکستان کی نشاندہی کے باوجود سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے خلاف بینرز لگنے کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہ لینے پر ایوان بالا کے ممبران کے اتفاق رائے سے سینیٹ میں پاک سوئس فرینڈ شپ گروپ کی سرگرمیوں کو معطل کرنے کی منظوری دے دی۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سوئٹزرلینڈ میں بلوچستان فری اور اس حوالے سے دیگر بینرز لگنے پر پاکستان کے بھرپور احتجاج کے باوجود سوئس حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی
نہ کرنے پر احتجاجاً سینیٹ میں پاک سوئس گروپ کی سرگرمیاں معطل کرنے کی تجویز پیش کی جس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اعظم سواتی نے کہا کہ پوسٹرز آویزاں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکومنٹریاں بھی بنائی گئی ہیں، یہ ہمارے لئے افسردگی کا باعث ہے۔ حکومت اور سفارت خانے نے کوئی موثر جواب نہیں دیا۔ سحر کامران نے کہا کہ ایک ایسی جگہ جہاں انسانی حقوق کو پروموٹ کیا جاتا ہے، وہاں اس طرح کے دوسرے ملک کے خلاف سازش پر سوئس حکام کی خاموشی کا مطلب ملی بھگت ہے، یہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عالمی سازش ہے اس پر سخت ایکشن لیا جانا چاہئے تھا۔ حکومت کو سوئس سفیر کو طلب کر کے احتجاج کرنا چاہئے یا سوئس سفیر کو احتجاجاً ملک بدر کیا جائے۔ سسی پلیجو نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھارتی لابنگ کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے۔ نعمان وزیر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کو اس معاملے کو بھی اٹھانا چاہئے۔
چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے اتفاق رائے پر سینیٹ میں پاک سوئس گروپ کی سرگرمیوں کو ایوان کے آئندہ فیصلے تک معطل کرنے کی منظوری دے دی۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے مشترکہ مفادات کونسل کی از سر نو تشکیل کے حوالے سے سینیٹر سحر کامران کی منظور شدہ تحریک التواء معلومات درست نہ ہونے کی بناء پر مسترد کر دی۔ اجلاس کے دور ان سینیٹر سحر کامران نے تحریک التواء میں موقف اختیار کیا تھا کہ قانون کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو صدر مملکت کرتے ہیں
لیکن مشترکہ مفادات کونسل کی از سر نو تشکیل میں رولز کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے از سر نو تشکیل کا نوٹیفیکیشن کیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز سینیٹر سحر کامران کی تحریک التواء بحث کے لئے منظور کرلی تھی۔ جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے فاضل سینیٹر کو بتایا کہ آپ کی معلومات درست نہیں ہیں جس نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن منگوا کر دیکھا ہے، آئین کے آرٹیکل 153 کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کی منظوری دی اور نوٹیفیکیشن جاری ہوا
لہذا یہ معلومات درست نہ ہونے پر اس تحریک التواء پر بحث کی اجازت نہیں ہو سکتی، اس تحریک التواء کو مسترد کیا جاتا ہے۔سینیٹ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی 2015ء کی رپورٹ پیش کر دی گئی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے ایف پی ایس سی کی سالانہ رپورٹ 2015ء سینیٹ میں بحث کیلئے پیش کی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ سول سروس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے تاکہ گڈ گورننس ہو سکے۔
سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ سول سروس حکومت کے لئے کلیدی کردار ادا کرتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کارکردگی کم ہوتی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایف پی ایس سی بورڈ کے انتخاب کے طریقہ پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق 22 ہزار لوگوں نے سی ایس ایس کے لئے اپلائی کیا۔ 12 ہزار نے تحریری ٹیسٹ دیئے جس میں 379 کامیاب قرار پائے۔ گریڈ 16 تا 20 کی 100 پوسٹیں تھیں لیکن ان کے لئے کوئی بھی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا۔
گزشتہ سال 82 پوسٹیں پر نہیں ہو سکیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پالیسی کو بہتر بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایف پی ایس سی میں بھی اصلاحات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ 60 یا 90 دن کے لئے کمیٹی بنائی جائے جو ایف پی ایس سی کی اصلاحات اور امتحانات کے نظام پر اپنی سفارشات دے تاکہ 21 ویں صدی کے چیلنجز سے نمٹا جائے۔ شبلی فراز نے کہا کہ وفاقی یا صوبائی پبلک سروس کمیشن ہوں اس میں انٹرویو کا پرانا طریقہ ختم کیا جائے۔ سراج الحق نے کہا کہ اچھی حکمرانی کے لئے اچھی بیورو کریسی لازمی ہوتی ہے۔
محسن لغاری نے کہا کہ اس رپورٹ کی ہر میٹنگ بہت اچھی ہے لیکن رپورٹ دیکھ کر مستقبل کو تاریک دیکھ رہا ہوں۔ نعمان وزیر نے کہا کہ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں افسران انتہائی قابل ہوا کرتے تھے، اب صورتحال سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف پی ایس سی میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے، تبھی اس کے معاملات بہتر ہوں گے۔ سی ایس ایس کا امتحان اگر کاروبار بن گیا تو اس سے ملک کو فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے لئے مختلف اکیڈمیاں بنی ہوئی ہیں،
ان اکیڈمیوں کے نصاب کو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ محسن عزیز نے کہا کہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والے اعلیٰ قابلیت کے حامل افسران ہوتے ہیں۔ اگر وہ معیار پر پورے نہیں اترتے تو اس سے امتحانی طریقہ کار پر سوالات اٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک سروس کمیشن میں ہونے والی تقرریوں کو بھی غیر جانبدار بنانا ہوگا۔ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں چاروں صوبوں کا کوٹہ مقرر ہے۔
کمیشن کے ارکان کی مہارت، تجربے اور بہترین کارکردگی کو مدنظر رکھ کر ان کی تقرری کی جاتی ہے۔ 2014ء میں 13170 امیدواروں نے امتحان دیا جن میں سے 377 امیدوار کامیاب ہوئے جن میں 144 مرد اور 89 خواتین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین بھی ملکی ترقی کی دوڑ میں بڑھ چڑھ کر کام کر رہی ہیں۔ پارلیمنٹ ہی وہ ادارہ ہے جس نے ہر چیز مدنظر رکھنی ہے۔ پبلک سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹ سے حکومت بھرپور استفادہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امیدواروں کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے اور فنی تعلیم کی طرف توجہ بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف پی ایس سی کے حوالے سے سفارشات پر حکومت مکمل طور پر غور کرے گی۔ اجلاس کے دور ان چیئرمین سینیٹ نے پبلک سروس کمیشن کے امتحانی نظام کی بہتری کے لئے تجاویز دینے کے حوالے سے کمیٹی قائم کر دی ہے۔ چیئر مین سینٹ نے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں چار ارکان حکومتی اور چار اپوزیشن کے ہوں گے
اور یہ کمیٹی پبلک سروس کمیشن کے امتحانی نظام کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرے گی۔ سینیٹر شیری رحمان اور تاج حیدر کے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر درشن کہا کہ حکومت کے موثر اقدامات کے نتیجے میں اسلام آباد میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔ پچھلے سال ان کی تعداد 125 تھی، اس مرتبہ 46 ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے،
وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھے گی اور ڈینگی کی روک تھام کے لئے ان کی رہنمائی اور عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے اقدامات کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لئے الگ وارڈ بنائے گئے ہیں جہاں پر مریضوں کے علاج کے لئے تمام سہولیات میسر ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی ڈینگی کے مریضوں کے علاج کے لئے اسلام آباد سے ٹیمیں بھجوائی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں ترکی کی کمپنی کو کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا ٹھیکہ دیا گیا یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ کراچی کی بھینس کالونی کا فضلہ 12 ہزار ٹن یومیہ ہے، اس سے 25 سے 30 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ہم اس کو سمندر میں ضائع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنا ہوگا، اس سے بیماریوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے بھی ڈینگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر نبھا رہی ہے۔