امرتسر(این این آئی)انڈین ریاست پنجاب میں کانگریس نے ریاستی انتخابات میں 117 میں سے 77 نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس سے وزیراعلیٰ پنجاب کپٹن امریندر سنگھ کو کابینہ کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا بھی ہے۔اگرچہ وزیراعلیٰ کے کرسی کے امیدوار سابق وزیراعلیٰ راجندر کور بھٹل اور کانگریس کے سابق ریاستی سربراہ سنیل جکھر کو انتخابات میں شکست کا سامنا ہوا لیکن دیگر کئی تجربہ کار سیاست دان کابینہ میں
جگہ بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔9 میں سے 8 وزراء کی حلف برداری کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ملیر کوٹلہ سے منتخب ہونے والی رکن اسمبلی رضیہ سلطانہ کی شمولیت بہت لوگوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت تھی۔رضیہ سلطانہ تیسری بار رکن اسمبلی بنی ہیں جبکہ گذشتہ 50 سال میں پنجاب میں وزارت کا قلمدان سنبھالنے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں۔50 سالہ رضیہ سلطان امریندر سنگھ کی گذشتہ حکومت میں چیف پارلیمانی سیکریٹری کے عہدے پر تعینات تھیں۔ یہ عہدہ وزیر ریاست کے برابر ہے تاہم اس کے پاس کسی وزیر جیسے اختیارات نہیں ہوتے۔ 2007 میں امریندر سنگھ کی حکومت کو شکست ہوئی تھی تاہم رضیہ سلطانہ نے کانگریس کے ہی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2012 کے گذشتہ انتخابات میں رضیہ سلطانہ ناکام رہی تھیں۔رضیہ سلطانہ کے شوہر ڈائریکٹر جنرل آف پولیس محمد مصطفیٰ ہیں اور اس وقت ڈی جی پی پنجاب ہیومن رائٹس کمیشن تعینات ہیں۔رضیہ سلطانہ سیاست میں خاصی سرگرم ہیں۔ انھوں نے حالیہ انتخابات میں اپنی حریف جماعت شرومنی اکالی دل کے محمد اویس کو 12700 ووٹوں کے فرق سے شکست دی جبکہ عام آدمی پارٹی کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہا۔ ان کے حلقے میں ووٹنگ کی شرح 17۔85 فیصد رہی جو کہ ریاست میں اوسط شرح 4۔77 فیصد سے کہیں زیادہ تھی۔رضیہ سلطانہ کو ریاست کے وزیر کے عہدہ دیا گیا ہے جبکہ پہلے
مرحلے میں کابینہ میں دو ہندو وزرا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔امریندر سنگھ نے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ معاشرے کی تمام اکائیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔ اگرچہ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد 93۔1 فیصد ہے اور وہ مسلم اکثریتی حلقے سے منتخب ہوئی ہیں، ان کی کابینہ میں شمولیت ایک مثبت اشارہ ہے۔اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ رضیہ سلطانہ کا انتخابات میں حصہ لینا اور وزارت حاصل کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے بھی
ایک پیغام ہے جس نے 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات اور حالیہ اترپردیش کے انتخابات میں کوئی مسلمان امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا۔ اس ضمن میں بی جے پی کا موقف تھا کہ انھیں کوئی ’مناسب‘ امیدوار نہیں ملا۔