بیجنگ(آئی این پی)چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کھانگ نے کہا ہے کہ چین نے علاقائی معیشتوں کے انضمام کے لئے مثبت نظریات کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے ،پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق معاہدے کی عملداری میں تاخیر کی گئی تو ہمیں تحفظات ہوں گے ، چین جزیدہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے اور خطے میں امن واستحکام کیلئے پرعزم ہے ۔
جنوبی کوریا میں امریکی دفاعی میزائل نظام (تھاڈ) کی تنصیب کے سخت مخالف ہیں کیونکہ یہ اقدام چین کے سیکیورٹی مفادات کے لئے خطرہ ہے ۔ترجمان چینی وزارت خارجہ لوکھانگ نے چینی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بحرالکاہل تجارتی معاہدے سے علیحدگی کا عمل اور اس جیسے دوسرے اقدامات علاقائی معیشتوں کے انضمام کیلئے فائدہ مند ہوں تو ہم ہمیشہ ان کی حمایت کریں گے تاہم اوبامہ انتظامیہ نے اس معاہدے کو تجارت کی بجائے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اگر ڈونلڈ ٹرمپ باہمی تجارتی معاہدوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو چین کو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ چین بھی مختلف ممالک کے ساتھ ایسے کئی معاہدے رکھتا ہے تاہم ہمارایہ خیال ہے کہ کثیر الجہتی تجارتی معاہدے بھی ضروری ہیں ۔انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیرس میں ہونے والے معاہدے کو ایک اچھا فریم ورک قراردیتے ہوئے کہا کہ اسے دنیا بھر نے قبول کیا ہے اگر اس پر عملدرآمد میں تاخیر کی گئی تو ہمیں یقیناً تحفظات ہوں گے۔
جزیرہ نما کوریا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کے جوہری معاملہ کو ابھرنا چین کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکہ کی پالیسیوں کے باعث ہوا اور امریکہ کے اب بھی شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات سب کے سامنے ہیں ۔چین نے جزیرہ نماکوریا کے معاملہ پر مذاکرات کیلئے چھ ملکی فریم ورک کی ہمیشہ حمایت کی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور جاپان کے مابین فروغ پاتے ہوئے تعلقات پر ہمیں کوئی تشویش نہیں ،اگر دونوں ممالک کے مابین تعلقات سے خطے مین امن وسیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو یہ اچھی بات ہے تاہم اگر یہ دونوں ممالک علاقے میں مخاصمت کو فروغ دینا چاہتے ہیں جس سے چین کے مفادات کو خطرہ ہو تو پھر چین اس کی مخالفت کرے گا۔ جنوبی کوریا میں تھاڈ کی تنصیب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدام چین کے سیکیورٹی مفادات کے خلاف ہے اس لئے اصولی طور پر اس کی مخالفت کی اور اس کی مخالفت صرف چین ہی نہیں بلکہ روس سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بھی کی جا رہی ہے ۔