مقبوضہ بیت المقدس(نیوزڈیسک)فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی ایک بس میں ہونے والے مبینہ فدائی حملے میں کم سے کم21 یہودی زخمی ہوگئے ، زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق بیت المقدس میں پیر کو رات گئے بس میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنےآ رہی ہیں۔ بیت المقدس میں اسرائیلی میئر نیر برکات کا کہنا ہے کہ بس میں ہونے والا دھماکہ بس میں نصب بم کے پھٹنے سے ہواہے جب کہ اسرائیلی پولیس نے اسے فدائی حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بس میں سوار ایک فدائی فلسطینی حملہ آور پاس موجود بم دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں اکیس افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکے میں حملہ آور بھی شدید زخمی ہوا ہے۔اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 7 نے بیت المقدس کے “ھداسا عین کارم“ اسپتال کے شعبہ حادثات کے ڈائریکٹر کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ دھماکے نتیجے میں اسپتال میں لائے گئے زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے لیے بال بیرنگ اور کیل استعمال کیے گئے ہیں جس سے یہ لگتا ہے کہ یہ ایک خود کش حملہ تھا۔اسرائیلی پولیس کی خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ بس میں دھماکہ دیسی ساختہ بم سے کیا گیا۔ زخمیوں میں ایک شخص کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دھماکہ اسی شخص نے کیا ہے۔خاتون ترجمان نے پہلے یہ کہا تھا کہ بس میں دھماکے سے متعلق ایسے اشارے ملے تھے کہ یہ کسی جنگجو کے حملے کے نتیجے میں ہوا ہے لیکن بعد میں نظرثانی شدہ بیان میں ترجمان نے کہا کہ ایک خالی بس کو پہلے آگ لگی تھی۔اس کے بعد دوسری بس بھی اس آگ کی لپیٹ میں آگئی اور اس میں سوار مسافر زخمی ہوگئے ہیںگذشتہ سال اکتوبر سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری نئے تنازع میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے اب تک 201 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ 28 اسرائیلی بھی مارے گئے ہیں۔اس سے قبل یروشلم میں 2011 میں ہونے والے بم دھماکے میں ایک برطانوی سیاح ہلاک ہوگیا تھا۔اس کے علاوہ 2013 میں تل ابیب میں خالی بس میں ہونے والے بم دھماکے کو اسرائیلی حکام نے دہشت گرد حملہ قرار دیا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ 2000 سے 2005 کے دوران فلسطینیوں کی دوسری انتقاضہ تحریک کے دوران اسرائیل میں متعدد خود کش دھماکے ہوئے، جس میں سیکٹروں اسرائیلی ہلاک و زخمی ہوئے۔