لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) لندن میں محقیقین نے ایک ایسی سکیننگ تکنیک تیار کی ہے جس کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے کہ ان بکسوں پر کیا لکھا ہوتا ہے جن میں حنوط شدہ لاشیں دفن کی جاتی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق قدیم مصر میں حنوط شدہ لاشیں نرسل کی قسم کے پودے سے بنے ہوئے بکس میں بند کی جاتی تھیں۔
ان بکسوں کو بعد میں مقبروں میں رکھ دیا جاتا تھا۔یہ بکس نرسل کی قسم کے پودوں کی باقیات سے بنتے تھے اور اس کو قدیم مصر میں شاپنگ کی فہرست تیار کرنے اور ٹیکس جمع کرانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔اس تکنیک سے تاریخ دانوں کو قدیم مصر کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں مزید جاننے میں مدد مل رہی ہے۔ فرعون کے مقبروں کی دیواروں پر تصویری زبان یہ بات واضح کرتی ہے کہ کیسے امیر اور طاقتور اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ یہ اس وقت کا پروپیگنڈا تھا۔پراجیکٹ کے سربراہ یونیورسٹی کالج آف لندن کے پروفیسر ایڈم گبسن کا کہنا ہے کہ نئی سکیننگ تکنیک سے قدیم مصر کا مطالعہ کرنے والوں کو قدیم مصر کی اصل کہانی جاننے میں مدد ملے گی۔کیونکہ نرسل کی قسم کے پودے کی باقیات استعمال کی گئی ہیں اس لیے یہ گذشتہ دو ہزار سال سے محفوظ ہیں۔ اس لیے یہ بکسے ایک لائبریری بن گئے ہیں۔ اور چونکہ یہ نرسل کی قسم کے پودے کی باقیات سے بنے ہوئے ہیں اس لیے محفوظ ہیں ورنہ ان کو کب کا پھانکا جا چکا ہوتا۔ ان بکسوں میں انفرادی شخص کے بارے میں معلومات ہیں اور ان کی زندگی کے بارے میں معلومات ہیں۔یہ بکسے 2000 سال پرانے ہیں۔ ان پر تحریر اکثر اس بکس کو جوڑنے کے لیے استعمال کیے گئے مخمور کے نیچے چھپ گئی ہیں۔ لیکن اب مختلف روشنیوں کا استعمال کرتے ہوئے سکیننگ سے اس تحریر کو پڑھا جا سکتا ہے۔
اس سکیننگ کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے پہلی کامیابی ا حنوط شدہ لاش کے بکس پر ہوئی جو کینٹ میں واقع چڈنگنگ سٹون قلعے میں رکھا ہوا ہے۔تحقیق دانوں کو اس بکس پر لکھی ہوئی وہ تحریر ملی جو اس تکنیک کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتی تھی۔