لندن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم مصروفیت کے درمیان اچانک کسی کام کے خیال سے دوسرے کمرے میں جاتے ہیں اور وہاں پہنچتے ہی ایک ہی پل میں غائب دماغ ہوجاتے ہیں۔ یاداشت پر زور ڈالنے پر بھی وہ کام یاد نہیں آتا ہے جو ہم یہاں کرنے آئے تھے اس پورے واقعے میں اگر پہلی اور آخری سرگرمی کے درمیان کوئی بات یاد رہ جاتی ہے تو وہ یہ کہ ہم کمرے کے دروازے سے گزر کر دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تھے اور یہیں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری یاداشت پر کمرے کے دروازے سے گزرنے کا کوئی اثر ہے۔ ایک نئی تحقیق نے اس مفروضے کی سائنسی وضاحت پیش کی ہے کہ کمرے کے دروازے سے گزرنے کا ہماری یاداشت پر غیرمحسوس اثر ہوتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے دروازے کے ذریعے چلنے کے خیال سے بھی یادوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم لمحہ بھر میں غیر حاضر دماغ ہوجاتے ہیں۔ تازہ ترین تحقیق میں محققین نے ایک سابقہ تحقیق کے حوالے سے اشارے لیے ہیں جس میں ظاہر ہوا تھا کہ دروازے سے گزرنا ہماری یاداشت میں ذہنی تقسیم کو داخل کرتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ یادوں کو ایک مسلسل واقعے کے بجائے حصوں یا اقساط میں تقسیم کر کے محفوظ کرتا ہے لیکن دروازے سے گزر کر جانا یا داخل ہونا دماغ میں ایک واقعہ کی حد کے طور پر کام کرتا ہے اور سرگرمیوں کی اقساط کو جدا کرتا ہے جس سے دماغ میں یادوں کی نئی قسط بنتی ہے جسے دماغ پرانی یاداشت کا حصہ بنا لیتا ہے۔ اسی لیے کسی ایسی سرگرمی جو مختلف کمرے میں ہوئی تھی اس کے بارے میں یاد کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ قسط کی صورت میں علحیدہ کی جا چکی ہوتی ہے۔ سائنسی جریدے ‘جرنل آف میموری’ میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ناصرف دروازے سے گزرنے پر ہم پچھلی بات بھول جاتے ہیں بلکہ دروازے سے گزرنے کا تصور بھی یاداشت پر یکساں طور پراثر انداز ہوتا ہے۔ سائنسی مطالعے میں دو گروپ شامل تھے ایک گروپ کو بغیر دروازے والے ہال میں داخل ہونے کے لیے کہا گیا۔ دوسرے گروپ کو اسی ہال میں ایک پردہ جسے دروازے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اس سے گزر کر اندر داخل ہونے کے لیے کہا گیا جس کے بعد رضا کاروں کو چند غیر معمولی تصاویر دکھائی گئیں۔ محقققین نے شرکاء سے کہا کہ وہ آنکھیں بند کر کے اسی کمرے کا تصور کریں جہاں وہ موجود ہیں۔ بعد میں انھیں دس تصاویر میں سے ان تصویروں کو منتخب کرنے کے لیے کہا گیا جو تجربے کے دوران دکھائی گئی تھیں۔ ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق نتیجہ وہی تھا کہ جس گروپ نے پردے ( دروازے) سےگزرنے کا تصور کیا تھا ان کی کارکردگی پہلے گروپ کے مقابلے میں خراب تھی۔ تحقیق کاروں نے کہا کہ نتیجے سے ثابت ہوا کہ دروازے سے گزرنے کے خیال سے یادوں کا سلسلہ ٹوٹ چکا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اس سارے ماحول کے مقابلے میں صرف دروازہ یاد رکھنے کی ایک چیز تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ صرف اس کا تصور اصل میں دروازے کے ذریعے چلنے کے نتیجے جیسا ہی تھا بلکہ زیادہ حیران کن تھا خاص طور پر جب اس نتیجے کا موازنہ اصل میں دروازے سے گزرنے کے ساتھ کیا جائے تو یہ یاداشت اور بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کو ایک لڑکے اور اس کے کتے کی چند پیراگراف پر مبنی کہانی سنائی جائے جس میں کہانی کی تمام تفصیل موجود ہے اور پھر اچانک ایک جملہ ڈال دیا جائے،’ چند گھنٹے بعد ‘ کیا اس طرح لڑکے اور کتے کی کہانی کے بارے میں آپ کی یاداشت بہتر ہو گی یا پھر بدتر ہو سکتی ہے۔ یقیناً جملے کی وجہ سے آپ کی یاداشت کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس جملے سے داستان میں ہونے والے واقعات کے درمیان حد داخل ہوتی ہے اور یہ جملہ یاداشت کی اقساط کے درمیان تقسیم پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے کہانی کے بارے میں جاننے کے لیے آپ کو ایک بار پھر سے آخری پیرا گراف کو یاد کرنا ہوگا جو کہ اچانک آپ کو یاد نہیں آرہے ہوں گے۔ تحقیق کاروں نے کہا کہ اس نتیجے سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا دماغ میکانکی حرکات کے ساتھ کام کرتا ہے لہذا محققین اگلی بار جب ایک کمرے سے گزر کر دوسرے کمرے میں داخل ہونے پر آپ کو کچھ یاد نا آئے تو اپنے آپ کو یاد دلایئے گا کہ آپ کا دماغ ماحول سے دی گئی ہدایات کا غلط مطلب نکال رہا ہے اور یہ سوچئیے گا کہ دروازے سے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی یاداشت کو تقسیم کی ضرورت ہے۔