لندن…. کینسر کا لفظ ایسا خوفناک ہے کہ ہر سننے والے کی دل کی دھڑکنوں کو روک دیتا ہے کیونکہ اس جان لیوا مرض کا ابھی تک کوئی ایسا علاج دریافت نہیں ہوسکا جو 100 فیصد اس سے نجات دیتا ہو تاہم اس کے لیے دنیا بھر کے سائنسدان کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسی ہی ایک کوشش میں تیار کیا گیا ہے پروٹان تھراپی کا طریقہ علاج جس سے مریض کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے سیل کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پرجب کینسر کا مرض زیادہ شدت اختیار کرجاتا ہے تو کیمو تھراپی کے ذریعے مریض کا علاج کیا جاتا ہے جس میں جہاں کینسر کے سیل کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں انسان کے صحت مند سیل بھی تباہ ہونے لگتے ہیں جو مریض کو اور کئی جسمانی قوتوں سے محروم کردیتا ہے لیکن بیلجیم میں سائنسدانوں نے ایک ایسا طریقہ علاج دریافت کر لیا ہے جو کسی گولی کی طرح سیدھا مونوکونونل اینٹی باڈیز میں پہنچ کر کینسر کے سیل سے جا کر ٹکراتا ہے اور اسے تباہ کردیتا ہے جب کہ صحت مند سیل اپنی جگہ محفوظ رہتے ہیں۔
بیلجیم کے ماہر نیوکلیائی طبیعات یووس جونگن نے کیمو تھراپی کی جگہ پروٹان تھراپی کا طریقہ دریافت کیا ہے جو پروٹان ریڈی ایشن کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے اور مختصر وقت میں اپنا کام مکمل کرلیتا ہے جب کہ اس کے سائیڈ افیکٹ بھی انتہائی کم ہوتے ہیں۔ یووس کا کہنا تھا کہ اس نے اس تھراپی کے لیے الگ انداز کی مشینیں بنائی ہیں، ان میں سے ایک مشین جو 2 میٹر موٹے بنکر پر مشتمل ہے جو ریڈی ایشنل شیلڈ کے طور پر کام کرتی ہے جب کہ دیگر مشینیں جنہیں ’سائیکلو ٹرون‘ کہا جاتا ہے پروٹان کی شعاعیں تخلیق کرتی ہیں جو اس مشین میں لیٹے مریض میں موجود کینسر سیل تک پہنچتی ہیں۔ انہوں نے اس طریقہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان بنکرز میں موجود خلا میں پروٹان کو زیادہ سے زیادہ رفتار دی جاتی ہے جو روشنی کی رفتار کی دوتہائی تک پہنچ جاتی ہے یعنی کہ 2 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ،ان اسپائرل انداز میں گھومتی ہوئی شعاعوں کو ٹریٹمنٹ روم تک پائپوں کی مدد سے لایا جاتا ہے جہاں مریض طاقتورڈوز حاصل کرتا ہے جو جسم میں داخل ہوکرصرف کینسر سیل کو ختم کرتی ہے جب کہ مریض کے دیگر خلیوں کو بہت کم نقصان کا سامنا اٹھانا پڑتا ہے اور یہی اس تھراپی کی نمایاں خصوصیت ہے۔
دوسری جانب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ پروٹان تھراپی تمام اقسام کے کینسر میں کامیاب نہیں تاہم اس تھراپی سے خون کے سیل میں پیدا ہونے والے کینسر ’لیوکیمیا‘ کا علاج کامیابی سے کیا جا سکتا ہے جب کہ اس علاج کا دوسرا منفی پہلو اس کا انتہائی مہنگا ہونا ہے کیونکہ ہر سسٹم اور بنکر کی تیاری میں 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر درکا ہوتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں اس کی صرف 43 آپریشنل پارٹیکل تھراپی سینٹر موجود ہیں۔ پورے برطانیہ میں صرف برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس میں اس کا ایک یونٹ قائم کیا جاسکا ہے تاہم اس کے تخلیق کاروں کو امید ہے کہ 2018 تک اس سسٹم کی تعداد دوگنا ہوجائے گی۔