پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

پشاور میں صحافیوں کے لیے ملک کے پہلے ٹراما سینٹر نے کام شروع کر دیا

datetime 21  جنوری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور۔۔۔۔پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے ملک کے پہلے ٹراما سینٹر نے کام شروع کر دیا ہے۔اس سینٹر میں صحافیوں کو شدید ذہنی دباؤ سے بچنے اور دیگر نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے علاج کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ذیشان انور گذشتہ پانچ برس سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان پانچ برسوں میں وہ سینکڑوں حملوں اور دھماکوں کی رپورٹنگ کر چکے ہیں۔لیکن 16 دسبمر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کی کوریج کے بعد ان کی ذہنی کیفیت ایسی ہوئی کہ انھیں دو روز بعد ہی پشاور میں صحافیوں کے لیے قائم کیے گئے ٹراما سینٹر میں نفسیاتی مدد کے لیے رجوع کرنا پڑا۔’مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں 16 دسمبر کو سی ایم ایچ گیا تھا جہاں میں نے وہاں لائی جانے والی بچوں کی لاشیں دیکھیں۔ مجھے بار بار انھی کا خیال آ رہا تھا۔ میں ذہنی دباؤ میں تھا۔ پھر مجھے صحافیوں کے لیے قائم ٹراما سینٹر کا پتہ چلا اور میں یہاں علاج کے لیے آیا۔‘کامپی ٹینس اینڈ ٹروما سینٹر پشاور یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں قائم کیا گیا ہے جس کے لیے یونیورسٹی کے شعبہصحافت اور جرمن ادارے ڈی ڈبلیو اکیڈمی نے مالی تعاون کیا ہے۔
مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں 16 دسمبر کو سی ایم ایچ گیا تھا۔ میں نے وہاں لائی جانے والی لاشیں دیکھیں۔ مجھے بار بار انھی کا خیال آ رہا تھا۔ میں ذہنی دباؤ میں تھا۔ پھر مجھے صحافیوں کے لیے قائم ٹراما سینٹر کا پتہ چلا اور میں یہاں علاج کے لیے آیا۔‘
صحافی ذیشان انور
ذیشان کہتے ہیں: ’سائیکو تھیراپسٹ میرے نفسیاتی ٹیسٹ لے رہے ہیں۔ میری ہسٹری سے متعلق معلومات لی گئی ہیں اور کچھ ذہنی ورزشیں بھی بتائی ہیں۔ مجھے لگتا ہے اب میرا ذہن پہلے جیسا منتشر نہیں اور میرا کام پر فوکس بحال ہوگیا ہے۔‘ذیشان ان نو صحافیوں میں سے ایک ہیں جو اب تک ٹراما سینٹر سے مستفید ہو چکے ہیں۔ یہ سینٹر دو کمروں پر مشتمل ہیں جس میں ایک ریلیکسنگ روم ہے جبکہ دوسرا کمرہ سائیکو تھیراپی کے سیشنز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ریلیکسنگ روم کو نیلا رنگ دیا گیا ہے جو سکون اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ ان کمروں میں سجاوٹ بھی ایسی ہی کی گئی ہے کہ تھیراپی کے لیے آنے والوں کا حوصلہ بڑھے اور انھیں سکون مل سکے۔پاکستان دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے، جہاں انھیں صرف جان کے خطرات ہی درپیش نہیں بلکہ وہ معاشی عدم تحفظ کے باعث بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔سائیکو تھیراپسٹ فرحت ناز نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں تین ماہ کا پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا جو کافی کامیاب رہا۔ صحافیوں کو ان کی ذہنی کیفیت کی شدت کی مناسبت سے روزانہ یا ہفتہ وار سیشنوں کے لیے بلایا جاتا ہے۔’پہلے ہم معلومات لیتے ہیں۔ کچھ ٹیسٹ لیتے ہیں اور پھر تھیراپی شروع کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے رویوں پر کام کیا جاتا ہے کہ وہ غصے اور دباؤ سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔‘پہلے ہم معلومات لیتے ہیں۔ کچھ ٹیسٹ لیتے ہیں اور پھر تھراپی شروع کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے رویے پر کام کیا جاتا ہے کہ وہ غصے اور دباؤ سے کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟
سائیکو تھراپسٹ فرحت ناز
دہشت گردی کے واقعات سے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی ویب سائٹ ساؤتھ ایشیا ٹیررزم کے مطابق صرف گذشتہ برس پشاور میں 169 حملے اور دھماکے ہوئے۔مقامی صحافیوں کو نفسیاتی مدد اور رہنمائی دینے کے لیے قائم کیے گئے ملک کے پہلے کامپی ٹینس اینڈ ٹراما سینٹر کے روح و رواں پشاور کے شعبہ صحافت کے چیئرمین الطاف خان ہیں۔الطاف خان کہتے ہیں: ’اس علاقے میں ذہنی دباؤ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ایک تو ہم یہ چاہتے تھے کہ صحافیوں میں یہ اہلیت پیدا ہو کہ وہ کسی بھی پرتشدد کارروائی کی کوریج پر جانے سے پہلے خود کو اس لے لیے تیار کر سکیں اوردوسرا یہ کہ جو مسائل پیدا ہو چکے ہیں ان کا علاج ہو سکے۔ کیونکہ یہ ذہنی مسائل صرف صحافیوں کو ہی متاثر نہیں کر رہے بلکہ ان کی پراڈکٹ یا رپورٹنگ کیذریعے لوگوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔‘ٹراما سینٹر میں علاج کے لیے صحافی براہ راست بھی رابطہ کرسکتے ہیں تاہم اس حولے سے پریس کلب بھی ٹروما سینٹر کے ساتھ کام کر رہا ہے
ٹراما سینٹر میں علاج کے لیے صحافی براہ راست بھی رابطہ کر سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے پریس کلب بھی ٹراما سینٹر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔منصوبہ شروع کرنے سے پہلے خدشہ یہ تھا کہ شاید صحافی نفسیاتی علاج سے منسلک سماجی تاثر کے باعث اس منصوبے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہ لیں تاہم شعبہ صحافت کے چئیرمین الطاف خان صحافیوں کے ردعمل سے مطمئن ہیں۔ان کا کہنا تھا: ’میں چاہوں گا کہ اس کو خواتین صحافی بھی اپنائیں۔ ایک تو علاقے میں خواتین صحافیوں کی تعداد کم ہے۔ دوسرا، خواتین کے نفسیاتی علاج کروانے کے حوالے سے سماجی رویے بھی بہت حوصلہ افزا نہیں لیکن جب اس منصوبے کی گروہی ملکیت پیدا ہو گی تو مجھے یقین ہے کہ خواتین بھی اس میں دلچسپی دکھائیں گی اور اپنے ذہنی دباؤ کیبارے میں بات کریں گی۔‘پشاور کے صحافی تو ہر لمحہ کسی پرتشدد کارروائی کی زد میں ہیں۔ تاہم ملک کے دوسرے شہروں میں بھی جان کے تحفظ، مالی مشکلات اور کام کے بے تحاشا بوجھ تلے دبے صحافیوں کی صورتِ حال بھی زیادہ نہیں مختلف نہیں ہے۔ٹراما سینٹر کا منصوبے کے لیے فی الحال تین سال کی فنڈنگ دستیاب ہے تاہم اسے ملک کے دوسرے علاقوں تک پھیلانے کی تجویز زیرِ غور ہے۔



کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…