لندن۔۔۔۔بین الاقوامی طبی امدادی ادارے میدساں ساں فرنتیئر نے ادویات بنانے والی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو دی جانے والی ویکسینیوں کی قیمتوں میں کمی کریں۔ادارے نے کمپنیوں سے ان ویکسینوں کی تیاری اور فروخت کے طریقوں میں بھی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ایم ایس ایف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2001 کے مقابلے میں آج بچوں کو دی جانے والی عام ویکسینیں 68 گنا زیادہ مہنگی ہیں۔ویکسین پالیسی کے لیے تنظیم کی مشیر کیٹ ایلڈر کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں تیار کی جانے والی ویکسینیں زیادہ مہنگی ہیں کیونکہ بازار میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ادویات موجود نہیں ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’جب آپ نئی ویکسینوں جیسے نمونیا، اسہال یا سروائیکل کینسر کی ویکسینیوں کی بات کرتے ہیں تو بازار میں ان کے مقابلے میں ادویات نہیں ہیں۔ جیسے نمونیا کی ویکسین صرف گلیکسو سمتھ کلائن اور فائزر بناتی ہیں۔‘جب آپ ان سے حاصل ہونے والے منافعے کو دیکھتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنا منافع کمانا جائز ہے۔ صرف نمونیا کی ویکسین سے ان دونوں کمپنیوں (گلیکسو سمتھ کلائن اور فائزر) نے 19 ارب ڈالر کمائے ہیں۔انھوں نے بازار میں مسابقت کی کمی کو قیمتوں میں زیادتی کی وجہ قرار دیا: ’مناسب مسابقت کے بغیر ہم ان کی قیمتوں میں کمی ہوتی نہیں دیکھتے اور کمپنیاں تو قیمت بڑھائے جا رہی ہیں۔‘کیٹ ایلڈر کا کہنا تھا کہ وہ ادویات کی تیاری کی خلاف نہیں لیکن دوا ساز کمپنیاں ان دواؤں کی تیاری سے بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں۔’ہم ان ادویات کی تیاری پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے جن کی ضرورت آنے والے کل میں پڑ سکتی ہے لیکن جب آپ ان سے حاصل ہونے والے منافعے کو دیکھتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنا منافع کمانا جائز ہے۔ صرف نمونیا کی ویکسین سے ان دونوں کمپنیوں نے 19 ارب ڈالر کمائے ہیں۔‘ایم ایس ایف کی مشیر نے کہا کہ اگر دیگر عالمی دوا ساز کمپنیوں کو یہ ویکیسینیں بنانے کی اجازت دے دی جائے تو ان کی قیمت میں ڈرامائی کمی آ سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’ہمیں چاہیے کہ ان ویکسینوں کی ٹیکنالوجی کو بھارت، انڈونیشیا اور برازیل جیسی معیشتوں تک پہنچایا جائے جہاں انھیں کم قیمت میں تیار کیا جا سکتا ہے، جہاں پیٹنٹ رکاوٹ نہیں ہیں اور جہاں یہ جلد از جلد مارکیٹ میں لائی جا سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ان کی قیمت میں تیزی سے کمی آ سکتی ہے۔‘
بچوں کی ویکسین دنیا بھر مہنگی ہو گئی،بین الاقوامی طبی امدادی ادارے پریشان
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں