پیرس ۔۔۔ اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کے دوران گذشتہ ہفتے جس مسلمان شخص نے یہودیوں کی سپر مارکیٹ میں لوگوں کو حملہ آوروں سے بچایا تھا اسے فرانسیسی شہریت دی جا رہی ہے۔افریقی ملک مالی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ لسانہ باتھیلی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ جمعے کو انھوں نے کس طرح سپر مارکیٹ میں کھڑے خریداروں کو چپکے سے دوکان کے تہہ خانے میں بڑے فریزر میں چھپا دیا۔لسانہ باتھیلی نے بتایا کہ انھوں نے لوگوں کو فریزر میں چھپانے کے بعد اس کی بجلی بند کر دی اور وہاں سے نکل آئے تاکہ پولیس کو اس واقعے کی خبر دیں۔فرانس کی حکومت نے لسانہ باتھیلی کی شہریت کی درخواست کو جلد از جلد نمٹا کر انھیں منگل کو ایک خصوصی تقریب میں شہریت کا سرٹیفیکیٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔یاد رہے کہ سپر مارکیٹ میں حملہ کرنے والے بندوق بردار احمدی کالیبالی کو پولیس نے گولی مار دی تھی لیکن اس سے پہلے اس نے مارکیٹ میں موجود چار یہودی مغویوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔اپنی جان کو داؤ پر لگا کر دوسروں کی زندگی بچانے کے جرات مندانہ اقدام کے بعد فرانس میں ایک پٹیشن یا اپیل تقسیم کی گئی تھی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ لسانہ باتھیلی کو ملک کی شہریت دی جائے۔لسانہ باتھیلی نو سال سے فرانس میں مقیم ہیں اور انھوں نے گذشتہ برس شہریت کی درخواست جمع کرائی تھی۔
لسانہ باتھیلی نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سپر مارکیٹ کے تہہ خانے میں تھے کہ انھوں نے اوپر کی منزل پرفائرنگ کی آواز سنی۔’ دکان میں موجود گاہکوں نے سیڑھیوں سے تہہ خانے میں اترنا شروع کر دیا۔وہ چیخ رہے تھے کہ دکان میں دہشت گرد گھس آئے ہیں۔‘لسانہ باتھیلی کا کہنا تھا کہ اس موقعے پر انھوں نے دیکھا کہ کولڈ سٹریج کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد پولیس نے سپر مارکیٹ ہر دھاوا بول دیا اور حملہ آور کو گولی مار دی
’میں نے انھیں کہا کہ وہ میرے ساتھ آئیں۔ میں انھیں کولڈ سٹوریج میں لے آیا اور اس کے بعد فریزر بند کر دیا اور لائٹ بھی بند کر دی۔‘’میں نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ یہاں دبکے رہیں اور اگر دہشت گرد نیچے آتا ہے تو اسے ان کی کوئی آواز نہیں آنی چاہیے۔‘لسانہ باتھیلی کے بقول جب سب لوگ چْپ کر کے بیٹھ گئے تو انھوں نے وہاں سے فرار ہو کر پولیس کو خبر کرنے کا فیصلہ کیا۔’ میں نے تہہ خانے سے باہر نکلنے کے لیے وہاں لگی ہوئی سروس لِفٹ استمعال کی۔ لفٹ سے نکل کر میں باہر بھاگا تو کیا دیکھا کہ وہاں بہت سے پولیس اہلکار پہلے سے ہی موجود تھے۔‘’پہلے تو انھوں نے مجھے اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرنے کو کہا لیکن جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں، چانچہ انھوں نے مجھ سے مدد مانگی۔‘
پولیس نے مجھے بتایا کہ کئی دوسرے مغوی بھی تہہ خانے میں چھپے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھے دکان کا نقشہ بنانے کو کہا تا کہ وہ اپنی کارروائی کر سکیں۔لسانہ باتھیلی کا کہنا ہے کہ دکان میں کام کرنے والے یہودی ملازمین کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے، بلکہ کبھی کبھی وہ مذاق بھی کرتے تھے کہ تم کوئی یہودی گرل فرینڈ کب بناؤ گے۔‘پیرس میں حملے کرنے والوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں لسانہ باتھیلی کا کہنا تھا کہ ’ وہ لوگ صرف مجرم تھے اور ان کا مقصد لوگوں کو اذیت پہنچانا تھا۔‘