ہم سب مزیدار چنوں سے محبت کرتے ہیں، پوریوں کے ساتھ یہ بہت اچھے لگتے ہیں، جبکہ سرحد کے اس پار ہندوستان میں بٹھورے کے ساتھ حقیقی لذت فراہم کرتے ہیں۔مجھے وہ پہلا موقع یاد نہیں جب میں نے چنے پوری کا مزہ لیا تاہم میں پوری زندگی اسے کھاتی اور پسند کرتی آئی ہوں۔ چنے پوری کا ضرب المثل ناشتہ ایسی چیز ہے جس کے لیے ہم جیسے تارکین وطن ترستے ہیں اور یہ اپنے وطن آنے پر میرا سب سے پہلا کھانا ہوتا ہے۔چنے ایک پھلی ہیں اور جب پھلیوں کو چھلکے سے باہر نکال لیا جاتا ہے تو انہیں پکانا اور ہضم کرنا آسان ہوتا ہے۔ برصغیر چنوں کو نت نئے انداز سے پکانے میں شہرت رکھتا ہے۔ہمارے مصالحے دار چنے کا ناشتہ اور چنا چور گرم گلی کوچوں میں ریڑھیوں پر فروخت ہوتے ہیں، جبکہ چنا چاٹ، چنے کی دال کا حلوہ اور ہر وقت کے فیورٹ ملتانی چھولے، امرتسری چھولے اور چکڑ چھولے حقیقی پنجابی لذت کے شاہکار ہیں۔چنوں کے بارے میں ایک دلچسپ چیز یہ ہے کہ اسے مکمل شکل میں یا دال کی شکل میں کھایا جاسکتا ہے۔ یہ وہ اجناس ہیں جو چھولے چنے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ چنے ایشیاء4 اور یورپ میں آٹھ سے دس ہزار سال سے جانے جاتے ہیں اور ان دونوں براعظموں میں اتنے طویل عرصے سے اس کی کاشت ہو رہی ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ اسے سب سے پہلے ممکنہ طور پر بحیرہ روم، فارس، افغانستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کاشت کیا گیا تھا۔ تاریخ سے عندیہ ملتا ہے کہ برصغیر بھی اس کے ا غاز کا مقام ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس کا بہت زیادہ استعمال پکوڑوں، پوری چنے، حلوہ اور اسی طرح کی طویل فہرست کے ذریعے ہوتا ہے۔
ملتانی چنے میں لاہوری ٹوئیسٹ چکڑ چھولوں کی شکل میں نظر آتا ہے جو مرغی اور چنوں سے بنتے ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب ملتانی چنوں کو امرتسری چنے بھی کہا جاتا ہے۔ نام چاہے جو بھی ہو اس کا ذائقہ سادگی سے بھرپور ہوتا ہے اور یہ غریبوں سے لے کر امیروں تک سب میں مقبول ہیں۔بچپن میں چنوں کا مزہ پوریوں کی دکان میں لیتی تھی کیونکہ وہ مزہ گھر میں کبھی نہیں ملتا تھا اور پھر میں نے ایک خفیہ جز دریافت کیا: سوڈا۔
یہ سوڈا ہے جو چنوں کو آپ کے منہ میں گھلا دینے والا بنا دیتا ہے۔اسی طرح موسم سرما کا کوئی بھی زبردست ناشتہ دم کے قیمہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا اور میری تحقیق مجھے اس پکوان کی تاریخ کے ایک دلچسپ موڑ پر لے گئی۔ موجودہ دور کا دم کا قیمہ آئینِ اکبری میں دی جانے والی ترکیب کا ملغوبہ ہے۔ میری والدہ ہمیشہ اس پکوان کو اس وقت ملغوبے کا نام دیتی تھیں جب وہ مختلف چیزوں کے امتزاج سے ناقابل شناخت ہوجاتا تھا۔میرا خیال تھا کہ یہ خود ساختہ نام ہے مگر گزشتہ دنوں اس نام کا اصل پکوان سامنے آیا اور اس کے مرکزی اجزاء4 اور پکانے کا انداز حیدرآبادی دم کے قیمے سے ملتا جلتا تھا۔
ملغوبے کی تاریخی ترکیب بکرے کے گوشت کی قیمت، دہی، گھی، پیاز، ادرک کی تازہ جڑیں اور لونگوں سے بنتی ہے۔آج جو میں تراکیب آپ کے سامنے پیش ہے، یہ شازلی آنٹی کے کچن سے مجھ تک پہنچی اور اب آپ کے لیے پیش خدمت ہے۔