نئی دہلی۔۔۔۔بھارت میں لیڈران کیا پڑھتے ہیں یہ شاید ہی کسی کو معلوم ہو گا۔ آج بھی ہم وزیر اعظم مودی یا ان سے پہلے منموہن سنگھ کی پڑھنے کی عادات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔لیکن اس کے برعکس امریکہ میں صدر کیا پڑھتے ہیں یہ واضح ہوتا ہے۔اوباما نے گذشتہ سال سے اب تک کون سی کتابیں لی ہیں اس سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس سمت میں سوچ رہے ہیں۔بھارت کے سب سے پہلے وزیر اعظم ایک عالم شخص تھے۔ جواہر لال نہرو ایک مصنف اور مؤرخ تھے جنہوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ بااثر کتاب ڈسکوری آف انڈیا، گلمپس آف ورلڈ ہسٹری اور ایک بااثر سوانح عمری لکھی۔ان کی بیٹی، بھارت کی تیسری وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی پڑھنے کا شوق تھا۔ملک کے نویں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کب بھی کتابوں سے لگاؤ تھا۔ وہ مادری زبان تیلگو کے علاوہ مراٹھی اور ہسپانوی زبان میں بھی ادب پڑھ سکتے تھے۔نہرو کی طرح ان کی بیٹی اندرا گاندھی کو بھی پڑھنے کا شوق تھا۔ان کے درمیان کے اور بعد کے وزرائے اعظم کے پڑھنے کی عادات کے بارے میں کم ہی معلوم ہے۔ہمیں یہ معلومات بہت کم ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی روزمرہ کی زندگی میں کیا پڑھتے ہیں، فائلوں کے علاوہ۔امریکہ میں ایسا نہیں ہے۔امریکہ صدر براک اوباما گذشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کتابوں کی دکان میں گئے اور چھٹیوں میں پڑھنے اور تحفے دینے کے لیے کتابیں خریدیں۔ان کا کتابوں کے لیے باہر جانا ایک سالانہ پروگرام بنتا جا رہا ہے۔نہرو کی طرح اوباما بھی جانے مانے مصنف ہیں اور ان کی کتابیں ’ڈریمز آف مائی فادر‘ اور ’اوڈیسٹی آف ہوپ‘ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی ہیں۔ یہ دونوں بیسٹ سیلر کتابیں انھوں نے صدر بننے سے پہلے لکھی تھیں۔جب سے اوباما صدر بنے ہیں وہ کون سے کتاب پڑھتے ہیں اس پر خاص نظر رکھی جاتی ہے تاکہ ان کی پالیسی کے تعین کو سمجھا جا سکے۔اوباما کے پیشرو جارج بش بھی بہت مطالعہ کرتے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ ان کا دانشمندی کے حوالے سے مذاق اڑایا جاتا تھامثال کے طور ایک بار مہم کے دوران انھیں جہاز سے اترتے وقت فرید ذکریا کی کتاب ’دی پوسٹ امیریکن ورلڈ‘ لیے ہوئے دیکھا گیا۔اس پر ان کے کچھ مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ وہ امریکہ کے زوال کے بارے میں ایک مسلم مصنف کی کتاب پڑھ رہے ہیں۔لیکن فرید ذکریا کی لکھی ہوئی یہ کتاب امریکہ کے زوال کے بارے میں نہیں ہے بلکہ باقی تمام ممالک کے عروج کے بارے میں ہے خاص طور پر چین اور بھارت کے۔اوباما کے پیشرو جارج بش بھی بہت مطالعہ کرتے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ ان کا دانشمندی کے حوالے سے مذاق اڑایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان میں یہ عادت ان کی لائبریرین بیوی نے ڈالی تھی۔