مٹھی۔۔۔۔ سندھ کے قحط زدہ علاقے صحرائے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ نہیں رک سکا اور اس کے ساتھ یہ تنازع بھی جاری ہے کہ وہاں کل کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق حکام ان ہلاکتوں کی تعداد 293 بتاتے ہیں جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق یہ تعداد 506 ہے جو روزانہ کی بنیاد پر نام اور پتے کے ساتھ یہ اموات رپورٹ کر رہی ہے۔ڈپٹی کمشنر تھرپارکر آصف جمیل کا کہنا ہے کہ دو دسمبر سنہ 2013 سے لے کر 17 نومبر سنہ 2014 تک پانچ سال سے کم عمر کے 293 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ بقول ان کے جب ان ہلاکتوں کی محکمہ ریوینیو کی جانب سے تصدیق کرائی گئی تو 220 بچوں کے لواحقین کا تعلق تھر سے تھا۔انھوں نے کہا: ’اب معاوضہ دیا جائے گا تو کئی دیگر مسائل سامنے آئیں گے، اگر بچے کی حالت تشویش ناک ہے تو بھی اس کو ہسپتال میں لایا جائے گا کہ اگر فوت ہو گیا تو بھی رجسٹرڈ تو ہوگا اور اس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ معاوضہ مل جائے گا۔‘تھر کے ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کی ہے کہ سات بچوں کی ہلاکت غذا کی کمی کے باعث ہوئی ہے۔واضح رہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایک بچے کی بھی ہلاکت بھوک سے نہیں ہوئی۔حکومت کی جانب سے تھر میں گندم کی مفت تقسیم کا چوتھا مرحلہ جاری ہے۔تھر کے محکمہ صحت کے ضلعی افسر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی کا کہنا ہے کہ رواں ماہ 20 بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ جنوری سے لے کر اکتوبر تک یہ تعداد 258 تھی۔ ڈاکٹر جلیل بھرگڑی نومولود بچوں کی ہلاکتوں کی چار وجوہات بیان کرتے ہیں۔’سر فہرست کم وزن، وقت سے پہلے پیدائش، برتھ اے سفکیزیا جس میں نومولود بچوں کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور چوتھا سیپسس، جس میں دائی بچے کی پیدائش کے وقت صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی۔‘ڈاکٹر جلیل نے خوراک کی قلت کو تسلیم کیا اور کہا کہ ماں کی صحت اچھی نہیں ہوگی تو یقیناً بچہ کمزور پیدا ہوگا۔ بقول ان کے جب بارشیں نہیں ہوتیں اور قحط پڑ جائے تو مناسب غذا نہیں ملتی جس کی وجہ سے ماں کمزور ہوتی ہے۔
حکومت کے پاس صرف ہپستالوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد دستیاب ہے، ڈاکٹر عبدالجلیل کا کہنا ہے کہ گھروں میں فوت ہونے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہوگی۔ڈاکٹر جلیل نے کہا کہ جب بارشیں نہیں ہوتیں اور قحط پڑ جائے تو مناسب غذا نہیں ملتی جس کی وجہ سے ماں کمزور ہوتی ہے
یاد رہے کہ تھر سے رکن صوبائی اسمبلی مہیش ملانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈسٹرکٹ ہپستال میں رواں سال ساڑھے تین لاکھ مریضوں کا معائنہ کیا گیا، سرکاری ریکارڈ کے مطابق مٹھی ڈسٹرکٹ ہسپتال سے تین سو سے زائد بچے دیگر شہروں کے ہپستالوں کی جانب بھی ریفر کیے گئے ان میں سے کچھ کی حیدرآباد میں بھی ہلاکت ہوئی تاہم یہ تعداد ضلعی انتظامیہ کے پاس دستیاب نہیں۔حکومت کی جانب سے تھر میں گندم کی مفت تقسیم کا چوتھا مرحلہ جاری ہے، جس میں دو لاکھ 58 ہزار میں سے 244 ہزار خاندانو ں میں 50 کلو گرام گندم تقسیم کر دی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر یعنی پی پی ایچ آئی اور ’ہینڈز‘ نامی غیر سرکاری ادارے کے ذریعے حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو اضافی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایک بھی بچے کی ہلاکت بھوک سے نہیں ہوئی۔ڈپٹی کمشنر آصف جمیل کے مطابق دونوں اداروں کے ذریعے حاملہ خواتین کا ڈیٹا بیس بنایا جائے گا کیونکہ نومولود بچوں کی جو اموات ہوتی ہیں اس کی ایک وجہ ان حاملہ خواتین کا چیک اپ نہ ہونا بھی ہے۔ڈیٹا بیس کی تیاری کے بعد شیڈیول بنایا جائے گا تاکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز یا لیڈی ڈاکٹر حاملہ خواتین کا چیک اپ کریں اور نشاندہی کریں کہ کون سی خواتین میں طبی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں
تھر میں بچے مر رہے ہیں ،حکا م کی تعداد پر لڑائی
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں