جمعہ‬‮ ، 16 مئی‬‮‬‮ 2025 

تھر میں بھوک سے خودکشیاں بڑھ گئیں

datetime 7  ‬‮نومبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تھر میں خوراک کی کمی کے باعث خواتین میں خون کی کمی عام ہے۔میاں بیوی اور آٹھ بیٹوں پر مشتمل اس گھرانے کے پاس چھ بھیڑیں، دو بکریاں اور اونٹوں کی ایک جوڑی باقی ہے جن کو وہ درختوں سے پتے اتار کر کھلاتے ہیں۔چمو میگھواڑ کے مطابق یہاں بھوک کا راج ہے اس قدر کہ جانور بھی بھوکوں مر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد جو دوسرے بچے بیراجی علاقوں میں گئے تھے وہ بھی واپس آگئے ہیں۔صحرائے تھر میں رواں سال خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔غیر سرکاری ادارے ایسوسی ایشن فار واٹر اینڈ اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی یعنی اویئر کے ڈائریکٹر علی اکبر راہموں کا کہنا ہے کہ صورتحال کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012 میں 24 افراد نے خودکشی کی تھی اور رواں سال کے دس ماہ میں 41 افراد اپنی جان لے چکے ہیں۔خودکشی کرنے والوں میں 90 فیصد ہندو ہیں، جن میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے جس وجہ سے قحط سالی ان کے لیے خوفناک نتائج لاتی ہے۔ ان نتائج سے بچنے کے لیے یہ لوگ مال مویشیوں سمیت بیراجی علاقوں کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں۔
اگرو میگھواڑ ننگر پارکر سے بس کا پانچ گھنٹے سفر طے کر کے عمرکوٹ میں ماہر نفیساتی امراض کے پاس پہنچے تھے۔کرائے، ڈاکٹر کے فیس اور ادویات خریدنے کے لیے انھیں تین میں سے ایک گائے سات ہزار میں فروخت کرنا پڑی۔اگرو میگھواڑ کے چار بچے ہیں، ان میں سے صرف ایک میٹرک پاس ہے اور وہ بھی بیروزگار ہے۔ بات کرتے وقت ان کا دائیں بازو مسلسل کانپتا رہا۔وہ بتاتے ہیں کہ بارشوں کے بعد کچھ کام دھندا ہوتا تھا، لیکن ان دنوں فارغ بیٹھے ہیں، چند مویشی ہیں جن پر گزر بسر ہو رہی ہے۔ڈاکٹر لکیش کھتری تھر اور آس پاس کے علاقے میں واحد ماہر نفسیات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگرو میگھواڑ ڈپریشن کا شکار ہیں: ’قحط سالی کے نتیجے میں معاشی دباؤ نے لوگوں پر ذہنی دباؤ بڑھا دیا جس وجہ سے ڈپریشن کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اس وجہ سے خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔‘

’قحط سالی کے نتیجے میں معاشی دباؤ نے لوگوں پر ذہنی دباؤ بڑھا دیا ہے‘ڈاکٹر لکیش کے مطابق قحط سالی کی وجہ سے لوگوں کے پیسے نہیں ہیں، خوراک کی کمی بہت ہے اس سے ذہنی نشو و نما بھی متاثر ہوتی ہے۔
’متاثرین جببیراجی علاقوں میں جاتے ہیں تو وہاں دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے پاس اتنا کچھ ہے اور ان کے پاس کھانے تک نہیں۔ اس سے ان میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ انھی احساسات میں کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس زندگی سے بہتر ہے کہ اس کو ختم کر دیا جائے۔‘تھر میں خوراک کی کمی کے باعث خواتین میں خون کی کمی عام ہے، جس کے نتیجے میں بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ہر دوسرے روز یہاں سے بچوں کی ہلاکت کی خبریں آ رہی ہیں لیکن حکومت سندھ کا موقف ہے کہ کسی بھی بچے کی ہلاکت بھوک سے ہوئی ۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



7مئی 2025ء


پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…