اسلام آبا د (نیوز ڈیسک) معروف صحافی اور کالم نگار محمد حنیف نے بی بی سی اردو کے لیے اپنے کالم میں سابق وزیراعظم عمران خان سے معافی کے مطالبے پر سوالات اٹھائے ہیں۔انہوں نے لکھا کہ اگر عمران خان واقعی گڑگڑا کر اور آنسو بہا کر معافی مانگ بھی لیں تو کیا انہیں معافی مل جائے گی؟ اور اگر مل گئی تو کیا وہ دل سے ہوگی؟ محمد حنیف نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ کیا نواز شریف یا آصف زرداری نے کبھی سچے دل سے معافی مانگ کر اقتدار حاصل کیا ہے؟کالم میں انہوں نے کہا کہ جیل میں قید کوئی بھی شخص اگر حکمرانِ وقت سے معافی مانگتا ہے تو عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ مصلحت کے تحت کی گئی ہے۔ اسی طرح اگر حکمران معاف بھی کر دے تو یہ تاثر رہتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی سیاسی فائدہ یا کوئی ذاتی مفاد ہے۔
اس طرح نہ معافی مانگنے والے کے دل سے بوجھ اترتا ہے اور نہ معاف کرنے والے کے دل سے شکوہ ختم ہوتا ہے، بلکہ ایک نئی گرہ پڑ جاتی ہے۔محمد حنیف نے مزید کہا کہ ہم بچوں کو بھی سکھاتے ہیں کہ “سوری بولو” اور کسی رشتے یا تعلق میں دراڑ آئے تو “سوری” کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ “آئی ایم سوری” کا اکثر اوقات کوئی حقیقی مطلب نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق معافی کے اس فلسفے کو انہوں نے زندگی میں سب سے زیادہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے سیکھا، ایڈیٹروں سے کم۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر عمران خان واقعی معافی مانگیں گے تو انہیں پہلے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ کس کس بات پر معافی چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق خان کے خلاف فہرست اتنی طویل ہو سکتی ہے کہ اسے تیار کرنے میں مہینوں لگ جائیں۔
اگر وہ صرف یہ کہیں کہ “اقتدار میں آنے کے لیے کندھوں کا سہارا لیا اور پھر انہی کے خلاف جانے کی کوشش کی” تو یہ بھی ایک نئی بحث چھیڑ دے گا، کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے مبینہ جرم میں دوسروں کو شریک بھی قرار دے رہے ہوں گے۔کالم کے آخر میں انہوں نے کہا کہ معافی کے لیے فرشتوں اور شیطان کی کہانیوں کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ زمینی حقائق پر ہی رہ کر سوچا جائے، کیونکہ زمینی غلطیوں کی معافی زمین پر ہی ممکن ہے۔