جمعرات‬‮ ، 15 مئی‬‮‬‮ 2025 

کئی لازوال دھنوں کے خالق نثاربزمی کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے

datetime 22  مارچ‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی) معروف موسیقار نثار بزمی کو دنیا سے رخصت ہوئے 12 برس بیت گئے لیکن ان کی تخلیق کی گئیں لازوال دھنیں آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔نثار بزمی 1924 میں بمبئی کے نزدیک خاندیش کے قصبے میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نثار بزمی شروع سے ہی مشہور بھارتی موسیقار امان علی خان سے متاثر تھے تاہم انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو ڈرامے

‘‘نادر شاہ درانی’’ کی موسیقی ترتیب دینے سے کیا جب کہ بطور موسیقار ان کی پہلی فلم ’’جمنا پار‘‘ تھی جو 1946 میں ریلیز ہوئی، جس کے بعد ان کی موسیقی ہر فلمساز کی ضرورت بن گئی۔ انھوں نے تقریبا 40 بھارتی فلموں میں موسیقی کی ترتیب کی۔ ممبئی میں ان کا ستارہ اس قدر عروج پر تھا کہ لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقار اْن کی معاونت میں کام کر چْکے تھے لیکن پاکستان فلم انڈسٹری کے معمار فضل احمد فضلی کے بلاوے پر انہوں نے بھارت چھوڑ کر پاکستان میں سکونت اختیار کرلی۔پاکستان میں قدم جمانا بھی کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ یہاں کے فلمی فلک پر بھی اْس وقت موسیقی کے کئی آفتاب اور مہتاب روشن تھے تو اس وقت پاکستان کی فلمی موسیقی میں خورشید انور اور رشید عطرے جیسے موسیقار چھائے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بابا چشتی، فیروز نظامی، روبن گھوش، سہیل رانا اور حسن لطیف بھی اپنے فن کا جوہر دکھا رہے تھے۔ ان کی بطور موسیقار پاکستان میں پہلی فلم ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ تھی جس میں ان کے گیت’’محبت میں تیرے سرکی قسم ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ پر احمد رشدی اور میڈم نور جہاں نے اپنی مدھر آوازوں کے جادو جگائے۔ جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔ ’صاعقہ‘،’انجمن‘، ’میری زندگی ہے نغمہ‘، ’خاک اور خون‘ اور ’ہم ایک ہیں‘ جیسی فلموں کی موسیقی تخلیق کی۔1966 میں انھوں نے ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کی موسیقی مرتب کی تو پاکستان کی فلمی دنیا میں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ بمبئی کا یہ موسیقار محض تفریحاً یہاں نہیں آیا بلکہ ایک واضح مقصد کے ساتھ یہاں مستقل قیام کا ارادہ رکھتا ہے جب کہ نثار بزمی کو ان کی فنی خدمات کے باعث پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی دیگر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔نثاربزمی کو نیم کلاسیکی دھنوں سے لے کر فوک

اور پاپ میوزک کی دھڑکتی پھڑکتی کمپوزیشن تک ہر طرح کی بندشوں میں کمال حاصل تھا اسی لئے محمد رفیع، احمد رشدی، مہدی حسن اور نور جہاں جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ انھوں نے رونا لیلٰی اور اخلاق احمد جیسی آوازوں کو بھی نکھرنے اور سنورنے کا موقع دیا۔ عظیم موسیقار 22 مارچ 2007 کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کی تخلیق کردہ موسیقی آج بھی کروڑوں لوگوں کو مسحورکردیتی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



7مئی 2025ء


پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…