ماسکو( آن لائن )دنیا کا سب سے بڑا گیس کا برآمد کنندہ روس اپنی سائبیریا کے علاقے سے نکلنے والی گیس کی یورپ اور ایشیائی ملکوں کو سپلائی کے لیے پائپ لائنوں کی تنصیب کے تین بڑے منصوبوں پر عمل کررہا ہے جس سے اس کی برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیاسی اثرورسوخ بھی بڑھ جائے گا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کی جانب سے یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی ممکن بنانے کے لیے نارڈ سٹریم
2 منصوبے پر کام جاری ہے جس کے تحت 2 بڑی گیس پائپ لائنوں کی تنصیب کا عمل تکمیل کے قریب ہے۔اس وقت یورپ کو 55 ارب مکعب میٹر گیس سالانہ فراہم کی جارہی ہے جسے بڑھانے بالخصوص جرمنی کو اس کی سپلائی دگنی کی جائے گی۔اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 9.5 ارب یورو (10.6 ارب ڈالر ) لگایا گیا ہے جس کے نصف اخراجات روس کی قومی آئل اینڈ گیس کمپنی گیزپروم ادا کرے گی جبکہ حصہ یورپین شراکت دار اداکریں گے۔امریکہ، مشرقی اور وسطی یورپی ممالک بالخصوص یوکرین نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے یورپ کا روسی گیس پر انحصار بڑھ جائے گا جسے وہ ان ملکوں پر اثرورسوخ کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس منصوبے اور اس میں شریک ملکوں کو پابندیوں کی دھمکی تک بھی دی ہے۔دوسرا بڑا منصوبہ چین کو گیس کی فراہمی کا ہے جس کی تحت چین کو سالانہ 38 ارب مکعب میٹر (1.3 کھرب مکعب فٹ) گیس سپلائی کی جائے گی، اس منصوبے کی لمبائی 3 ہزار کلومیٹر (1850 میل ) ہے جو سائبیریا کے دور دراز مشرقی علاقے سے شروع ہوکر چین کی سرحد پر واقع شہر بلاگوویشچنسک تک لائی جائے گی، یہ 2025 میں مکمل ہوگا، 400 ارب ڈالر کے اس 30 سالہ منصوبے پر 2014 میں دستخط کیے گئے تھے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپ کے روس کے ساتھ سالوں تک کشیدہ تعلقات کے باوجود
اب بھی اس کی گیس کا بڑا خریدار ہے۔ترکی بھی روسی گیس کے خریداروں میں شامل ہے۔روس ترکی کو گیس کی سپلائی بلیوسٹریم اور بلقان کے آر پار گیس پائپ لائن کے ذریعے فراہم کرے گا،ترک سٹریم منصوبہ دو پائپ لائنوں پر مشتمل ہے جو بحیرہ اسود کے نیچے سے گزر رہی ہیں، ایک لائن ترک صارفین کے لیے جبکہ دوسری سے
جنوبی و جنوب مشرقی یورپ کو فراہم کی جائے گی۔ان میں سے ہرایک لائن کی گیس سپلائی کی صلاحیت 15.75 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان اس منصوبے کا افتتاح جنوری میں کرنا چاہتے ہیں، نارڈ سٹریم 2 گیس سپلائی منصوبے کی طرح یہ پائپ لائنز بھی یوکرین کے راستے گزریں گی۔