اسلام آباد (آئی این پی ) مجموعی طورپر چین اور راستے سے متصل ممالک یکساں ترقیاتی مرحلے پر ہیں اور چین دوسرے ترقی پذیر ممالک کی کچھ رہنمائی کرسکتا ہے،مثال کے طورپر چین کو اس وقت جس زبردست کہر آلود دھند اور زبردست آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،ترقی کے ساتھ ان ممالک کو بھی لاحق ہو سکتی ہے، چین کے سرکاری میڈیا (گلوبل ٹائمز ) نے ماہرین کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ پاکستان چین کے
صدر شی چن پھنگ کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے اہم مستفید ہونیوالے کے طورپر ابھرا ہے،خاص طورپر اپنے توانائی کے بحران سے نجات حاصل کرنے کے سلسلے میں چین راستے سے متصل ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ توانائی تعاون کو مستحکم کرنے کو انتہائی ترجیح دے رہا ہے ، پاکستان اربوں ڈالر مالیت کے اقتصادی راہداری منصوبے جو چین کے انرجی ٹرانسپورٹ سکیورٹی کی بھی ضمانت دیتا ہے سے فائدہ اٹھا رہا ہے، خشکی اور بحری راستے کے ذریعے تیل و گیس کی تقسیم کے تمام مشمولہ نیٹ ورک سے کافی حد تک مشرق وسطیٰ ، وسطی ایشیاء اور جنوبی مشرقی ایشیاء کے علاوہ پاکستان میں انرجی تجارت کے طریقے کو تبدیل کرسکتا ہے، ماضی میں چین زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے تیل و گیس برآمد کرتا تھا ،2014ء میں چین روس گیس معاہدے نے نہ صرف چین کو اپنی برآمدات کو وسیع کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اس سے گیس کی درآمد کے چار اہم روٹس قائم ہوئے ہیں اور گیس کی کھپت کے اپنے تناسب میں اضافہ کرنے کے لئے چین کو مدد بھی ملی ہے، درحقیقت بیلٹ و روڈ روٹ سے متصل ممالک کے ساتھ توانائی تعاون چین کی توانائی سکیورٹی کی محض ضمانت دینے کے علاوہ کئی پیچیدگیاں ہیں ، اس سے چین کو اپنی فاضل پیداواری گنجائش کا مسئلہ حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور عالمی طورپر توسیع دینے کے لئے چینی فرموں کی
حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے ، ملک کی ٹیکنالوجی آمادگی کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نہ صرف اقتصادی فوائد حاصل ہو ں گے بلکہ اس کے پارٹنروں کو ماحولیاتی فوائد بھی حاصل ہوں گے ، مثال کے طورپر تھرمل پاور تعاون بیلٹ و روڈ منصوبے کے تحت بدستور ترجیح ہے، چین کی فاضل تھرمل پاور اکیوپمنٹ پروڈکشن گنجائش کے باوجود روٹ کے ساتھ تھرمل پاور پلانٹ کی تعمیر کی زبردست مانگ ہے، پاکستان جیسے ممالک اور افریقی ممالک میں شہریوں کو بجلی تک محدود رسائی حاصل ہے اور موجودہ تھرمل پاور یونٹس فرسودہ ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، سربیا میں تقریباً تین دہائیوں میں کوئی نیا بجلی پیدا کرنیوالا یونٹ شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ موجودہ یونٹوں کی سروس لائف ختم ہونیوالی ہے، اس سے چین کی تھرمل ٹیکنالوجیوں جو ملکی ساختہ اور جدید ہیں کیلئے زبردست مواقع فراہم ہونگے اور ملکی فرموں کو بین الاقوامی پراجیکٹوں کو چلانے میں تجربہ حاصل ہے ، چین اور اس روٹ سے متصل ممالک کے درمیان تھرمل پاور تعاون اعزازی ہے کیونکہ ان ممالک کے پاس اپنی موجودہ تنصیبات کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی یا ماحولیاتی فوائد کے ذریعے مسابقتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے عملی مانگ ہے ، صاف توانائی میں قازقستان جیسے روٹ سے ملحق ممالک میں یورینیم کی کانوں ، ونڈ پاور ، شمسی توانائی اور آبی بجلی کے وسائل کے وافر ذخائر ہیں جبکہ چین کے پاس جوہری توانائی ، ونڈ پاور اور شمسی بجلی ٹیکنالوجیوں جیسی صاف توانائیوں کی ترقی اور عمل کرنے میں میچور ٹیکنالوجی اور تجربے کی بہتات ہے،
چین اور قازقستان کے درمیان تعاون نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ اس سے سبز معیشت کی جانب دونوں ممالک کی منتقلی میں مدد مل سکتی ہے ، مجموعی طورپر چین اور راستے سے متصل ممالک یکساں ترقیاتی مرحلے پر ہیں اور چین دوسرے ترقی پذیر ممالک کی کچھ رہنمائی کرسکتا ہے،مثال کے طورپر چین کو اس وقت جس زبردست کہر آلود دھند اور زبردست آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،ترقی کے ساتھ ان ممالک کو بھی لاحق ہو سکتی ہے،
ان ممالک کو توانائی، معیشت اور مکاحول کے درمیان تعاون قائم کرنے کی ضرورت ہے، ترقی کے ابتدائی مرحلے میں یہ عمل ناگزیر ہے کہ معیشت کو ماحول کی قیمت پر فروغ حاصل ہو گا ، یہ ایک ایسا جال ہے جس کو قبل از وقت دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس پر قابو پانا مشکل ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا یہ ممالک چین سے بہتر طورپر اپنے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں ، چین کے مقابلے میں ان ممالک کو اپنے چھوٹے اقتصادی حجم ہائے کی بدولت ماحولیاتی گورننس کے ضمن میں بڑا فائدہ حاصل ہے اور ان کے لئے متبادل توانائی تلاش کرنا آسان ہے، اس لئے انہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ توانائی کے استعمال کا موزوں منصوبہ مرتب کرے ، صاف توانائی کو فروغ دے اور مستقبل کی تیاری کرے ۔