واشنگٹن(این این آئی)پاکستان کے اقوام متحدہ میں مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ پاکستان علاقائی ممالک کے اتفاق رائے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کریگا۔میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا سوال گزشتہ روز اس وقت دوبارہ سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم کیے بغیر طالبان کے زیر انتظام افغانستان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے کے لیے ووٹ دیا۔
کونسل کے 15 ارکان میں سے چودہ نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ روس نے اس قرارداد میں حصہ نہیں لیا۔ منیر اکرم نے کہا ہم یہ افغانستان کو اسی وقت تسلیم کریں گے جب خصوصاً علاقائی ممالک میں اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے قائم ہو۔افغانستان کے چھ قریبی پڑوسی اگلے ماہ چین میں ملاقات کر رہے ہیں اور یہ ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ایشوز میں سے ایک ہو گا، اجلاس میں چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شرکت کریں گے جبکہ طالبان کا وفد بھی شریک ہو گا۔روس گوکہ افغانستان کا براہ راست پڑوسی نہیں ہے لیکن اسے پچھلے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا اور وہ اس اجلاس میں بھی شرکت کر سکتا ہے البتہ اجلاس میں بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔سفیر منیر اکرم نے کہا کہ منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قرارداد میں ایک خامی تھی کہ اس میں افغانستان میں ڈی فیکٹو حکومت کا کوئی حوالہ نہیں ہے حالانکہ اس میں متعلقہ حکام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت کا ذکر موجود ہے۔
بظاہر فرانس اور بھارت نے ڈی فیکٹو حکام کے حوالے سے کسی بھی قسم کی مخالفت نہیں کی اور اسے مینڈیٹ سے باہر رکھنے میں کامیاب رہے۔منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کو مقامی حکام کی رضامندی اور تعاون کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور ہماری نظر میں اس کی عدم موجودگی مینڈیٹ کی کمی کے مترادف ہے تاہم پاکستانی سفیر نے تسلیم کیا کہ قرارداد نے افغانستان کو عطیات کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے غیرمشروط انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اگست 2021 سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے افغانستان کی مدد کے لیے 4.4 ارب ڈالر کی اپیل شروع کی ہوئی ہے جبکہ اس کے علاوہ ملک کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی 3.4 ارب ڈالر کی علیحدہ اپیل کر رکھی ہے۔پاکستانی سفیر نے نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں امریکا میں منجمد افغانستان کے اثاثوں کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔