منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

اشرف غنی کے ساتھ آخر کیا ہوا؟ سلیم صافی کے تہلکہ خیز انکشافات

datetime 22  ستمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی ٗتجزیہ کاراور اینکر پرسن سلیم صافی روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ اگست کے اوائل میں طالبان کابل کے اردگرد کے صوبوں پر قابض ہونے لگے۔ افغان صدر اشرف غنی، نائب صدر امرﷲ صالح اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمدﷲ محب تندوتیز بیانات دے کر ملک کا دفاع کرنے اور زندگی کی آخری سانس تک لڑنے کا عزم ظاہر

کررہے تھے لیکن عملاً طالبان کو کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا تھا۔13 اگست کو طالبان کابل کے دروازے پر پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔ اشرف غنی اور ان کی ٹیم کے دعوؤں کی روشنی میں تجزیہ کار کابل میں خونریزی کا خدشہ ظاہر کررہے تھے لیکن اشرف غنی کی مشاورت کا دائرہ چند افراد تک محدود تھا۔ تاہم 14 اگست کی صبح اشرف غنی نے سابق افغان صدر حامد کرزئی، عبدﷲ عبدﷲ، یونس قانونی اور دیگر افغان رہنمائوں کو مشورے کے لئے بلایا۔صرف استاد سیاف موجود نہیں تھے کیونکہ وہ علاج کے لئے بیرون ملک گئے تھے۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے تین گھنٹے تک ان کے ساتھ مشاورت کی اور ان کو رتی بھر یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ قطر معاہدے کے بعد یہی رہنما ان سے درخواست کررہے تھے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا اختیار انہیں دے دیں کیونکہ حامد کرزئی کی ثالثی سے اشرف غنی اور عبدﷲ عبدﷲ کے مابین طے پانے والے معاہدے کی رو سے پیس کونسل کے سربراہ عبدﷲ عبدﷲ تھے۔

اس روز پہلی مرتبہ انہوں نے عبدﷲ عبدﷲ اور ان کے ساتھ آئے ہوئے رہنماؤں کو طالبان کے ساتھ ڈیل کا مکمل اختیار دیا۔ ان سے کہا کہ وہ فوراً قطر چلے جائیں اور طالبان کے ساتھ انہوں نے جو بھی فیصلہ کیا، وہ انہیں قابل قبول ہوگا لیکن ان لوگوں کو رتی بھر یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ خود ملک چھوڑنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ مذکورہ رہنما اشرف غنی کے ساتھ میٹنگ کے بعد قطر جانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔

طالبان کے قطر دفتر سے رابطہ کیا اور سفر کے لئے ٹکٹوں کا انتظام کرنے لگے لیکن اسی روز شام کو انہیں اطلاع ملی کہ اشرف غنی تو ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے تاہم غنی کے برعکس حامد کرزئی، گلبدین حکتمیار اور عبدﷲ عبدﷲ نے ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وڈیو پیغامات جاری کئے کہ وہ کہیں نہیں جارہے اور کابل میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہی موجود ہوں گے۔

دوسری طرف اشرف غنی نے اپنی کابینہ کے اراکین کو بھی اعتماد میں نہیں لیا اور فرار کے منصوبے میں صرف اپنے سیکرٹری ڈاکٹر فضلی اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمدﷲ محب کو ساتھ لیا۔ اسی شام کچھ افراد اور بہت سارا مواد بھی انہوں نے ازبکستان منتقل کیا۔ وہ ہیلی کاپٹر میں رات کے وقت بغیر لائٹس استعمال کئے ازبکستان میں لینڈ کررہے تھے جس پر ازبکستان کے حکام حیران تھے۔

اشرف غنی اور ان کے دو ساتھیوں نے اپنا سامان کاروں میں ائیرپورٹ منتقل کیا اور خود ہیلی کاپٹر کے ذریعے ائیرپورٹ گئے۔ انہوں نے بیرون ملک جانے کے لئے آریانا ائرلائن کا جہاز بھی استعمال نہیں بلکہ نجی ائرلائن کے جہاز کو چارٹرڈ کیا تھا۔ حالانکہ امریکیوں کے ساتھ ان کا طے پایا تھا کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوئے تو وہ امریکی سفارتخانے منتقل ہوں گے لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے

امریکیوں سے بھی معاملے کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی۔رات گئے ان کے جہاز نے ازبکستان میں لینڈ کیا۔ جب وہاں کے حکام کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنے صدر کو نیند سے جگا دیا۔ وسط ایشیا میں چونکہ ازبکستان امریکہ کے زیادہ زیراثر ملک سمجھا جاتا ہے اور اشرف غنی بھی امریکہ کا بندہ تصور ہوتے تھے، اس لئے دونوں کی دوستی پورے خطے میں مشہور تھی۔ ازبک صدر جو کچھ عرصہ قبل

ان کے قریبی دوست تھے، اپنے ملک آئے ہوئے اشرف غنی اور ان کی اہلیہ سے تو ملے لیکن ان کے حکام ان سے ازبکستان کے ویزے کا پوچھتے رہے اور یہ بھی شکوہ کرتے رہے کہ انہوں نے بغیر ویزے کے ان کے ملک کا سفر کیوں کیا۔ دوسری طرف حمدﷲ محب اور ڈاکٹر فضلی کو جہاز سے بھی اترنے نہیں دیا گیا۔اِس دوران اشرف غنی اپنے سابقہ دوست کا منت ترلہ کرکے کہتے رہے کہ وہ انہیں اپنے

ملک میں قیام کی اجازت دیں لیکن ازبک صدر نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے مشترکہ دوست امریکہ سے رابطہ کیا۔ امریکیوں نے بھی اشرف غنی کو مزید اپنا دوست ماننے سے انکار کیا اور ازبک صدر سے ازخود فیصلہ کرنے کا کہا۔ ازبک صدر کو احساس ہوا کہ ایک طرف امریکی ان کو مزید دوست نہیں سمجھ رہے اور دوسری طرف ان کو اپنے ہاں قیام کی اجازت دینے سے طالبان ناراض ہوں گے، اس لئے انہوں نے اپنے سابقہ دوست اشرف غنی کو

اپنے ملک سے نکل جانے کا کہا۔واضح رہے کہ چند روز بعد ازبک حکومت نے وہ ہیلی کاپٹر اور دیگر سامان بھی طالبان کے حوالے کیا جو اشرف غنی نے ازبکستان منتقل کئے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد مختلف ذرائع سے اشرف غنی نے دبئی کے حکام سے رابطہ کیا جنہوں نے انہیں وہاں آنے کی اجازت دی اور یوں وہ بوجھل دل کے ساتھ دبئی کی طرف روانہ ہوگئے۔ دبئی پہنچنےکے بعد وہ ایک ٹویٹ اور ایک وڈیو پیغام جاری کرچکے ہیں لیکن مزید خاموشی سے افغانستان کے حالات کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف سقوط کابل کے بعد امریکی صدر نے طالبان یا ان کے کسی سپورٹر ملک پر اپنا نزلہ اس قدر نہیں گرایا جتنا کہ اشرف غنی پر گرایا۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…