لندن (نیوزڈیسک )امریکی صدر براک اوباما کہا ہے کہ برطانیہ عالمی سطح پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے کے لیے یورپی یونین میں ضرور شامل رہے۔بی بی سی سےبات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت بحراقیانوس کے پار اتحاد کی مضبوطی کے لیے بہت زیادہ اعتماد فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یورپی یونین نے دنیا کو محفوظ تر اور زیادہ خوشحال بنایا ہے۔صدر اوباما نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ امریکی کانگریس میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی منظوری دے دی جائے گی۔انھوں نے امریکہ میں اسحلہ رکھنے سے متعلق قوانین میں ناکامی کو تسلیم کیا۔کینیا کے دورے پر جانے سے پہلے انھوں نے وائٹ ہاس میں بی بی سی سے بات چیت کی۔ واضح رہے کہ امریکی صدر جمعے سے افریقہ کا ایک مختصر دورہ کر رہے ہیں۔صدر اوباما کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی دنیا کا محفوظ بنانے کے لیے اس کے ذاتی مفادات سے مبرا ہونے کی خواہش کی وجہ سے وہ امریکہ کا بہترین پارٹنر ہے۔انھوں نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی ایک نمایاں پارٹنر قرار دیا اور ان کی حکومت کو دفاع پر جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ مختص کرنے کا نیٹو کا ہدف حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی۔صدر اوباما نے وزیراعظم کیمرون پر اس ہدف کے حصول کے لیے دبا ڈالنے کی تردید کی اور کہا دونوں سربراہان کے درمیان ایماندارانہ گفتگو ہوئی تھی۔براک اوباما کا کہنا تھا کہ وہ بارہا مرتبہ ہونے والے شوٹنگ کے واقعات کے باوجود گن کنٹرول قوانین کے حوالے سے سب سے زیادہ مایوس ہیں۔صدر اوباما نے کہا: اگر آپ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد ہلاک ہونے والے امریکیوں کی تعداد دیکھیں، یہ ایک سو سے بھی کم ہے۔ اگر آپ اسلحے کے ذریعے ہونے والے پرتشدد میں مرنے والوں کی تعداد دیکھیں تو یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ہمارے لیے اس مسئلے کا حل تلاش نہ کرنا تشویش ناک ہے۔صدر اوباما نے اپنے دور صدارت کے دوران گن کنٹرول قوانین پر سختی کرنے کی کوششیں کی لیکن وہ اس سے متعلق قوانین میں کوئی نمایاں تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔جون میں جنوبی کیرولائنا میں نو افریقن امریکن کی چرچ میں ہلاکت کے بعد انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ اس شہر میں سیاست کا مطلب تھا کہ یہاں بہت کم مواقع موجود ہیں۔انھوں نے اپنی صدارت کے بقیہ مہینوں میں بھی گن کنٹرول سے متعلق قوانین میں سختی کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ تاہم بی بی سی کے جون سوپیل کا کہنا ہے کہ صدر اوباما اس حوالے سے زیادہ پراعتماد دکھائی نہیں دیتے۔نسلی تعلقات کے بارے میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا: پولیس اور بڑی تعداد میں حراستوں سے متعلق حالیہ تشویش جائز اور توجہ طلب ہے۔انھوں نے اصرار کیا کہ ان کے دور میں پلنے بڑھنے والے بچوں کا ملک میں نسلی تعلقات کے بارے میں مختلف نکتہ نظر ہوگا اور ایسا ممکن ہے۔انھوں نے کہا: تنا بڑھنے کی صورتحال ہوگی لیکن اگر آپ میری بیٹیوں کی پود کو دیکھیں، تو ان کا رویہ میری پود کے لوگوں سے بھی بالکل مختلف ہے