کابل /واشنگٹن(این این آئی)امریکی حکام کی جانب سے سفارتکاروں کی سیکیورٹی پر مامور 650 امریکی فوجیوں کے افغانستان میں رہنے کا امکان ظاہر کرنے پر طالبان ترجمان نے ردعمل دے دیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ انخلا کی تاریخ کے بعد بھی اگر امریکی افواج افغانستان میں رہیں تو
طالبان ردعمل کا حق رکھتے ہیں۔ طالبان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن کے بعد اگر 650 امریکی فوجی افغانستان میں رہے تو یہ معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہوگی۔ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے کے تحت 11 ستمبر کے بعد امریکا افغانستان سے تمام فوجیوں کے انخلا کا پابند ہے۔ دوسری جانب امریکی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں سرکاری افواج کو معاونت پیش کرنے کے سلسلے میں اس کی فضائی کارروائیاں جاری ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق بیان میں مزید کہا کہ افغانستان سے امریکی سرزمین کے لیے کسی بھی خطرے کی صورت میں واشنگٹن واپس آ کر اس خطرے کے ذرائع کو نشانہ بنانے پر مجبور ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ افغانستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کا گڑھ بننے سے روکا جائے۔واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز باور کرایا تھا کہ امریکی فوج کے طے شدہ انخلا کے باوجود امریکا اور افغانستان کے بیچ شراکت داری ہر گز ختم نہیں ہو گی بلکہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔بائیڈن کا یہ بیان افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کے دوران میں سامنے آیا۔دوسری جانب افغان صدر نے زور دیا کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ شراکت داری کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے آخری
مراحل میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کو قانون سازوں اور عسکری ذمے داروں کے شدید دباؤ کا سامنا ہے جن کا مطالبہ ہے کہ افغان حلیفوں کو طالبان کے انتقامی حملوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔بائیڈن نے اپریل میں فیصلہ کیا تھا کہ 11 ستمبر تک 2500 امریکی فوجیوں کا انخلا عمل میں لایا جائے گا۔ یہ فوجی ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں۔یاد رہے کہ امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے گذشتہ ہفتے پیش کیے جانے والے ایک جائزے میں یہ کہا گیا تھا کہ افغان حکومت امریکی انخلا مکمل ہونے کے بعد توقع سے بھی زیادہ جلدی یعنی چھ ماہ کے اندر گر جائے گی۔