اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر صحافی سلیم صافی اپنے کالم ”کورونا اور سونامی سرکار” میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کورونا سے متعلق این سی او سی کی کارکردگی سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ محترم اسد عمر مارکیٹنگ کے ماہر ہیں اور وہ بھی صرف اپنی ذات کی مارکیٹنگ کے۔ اول تو این سی او سی کی ذمہ داری، ایسے شخص کو دینا درست نہیں
تھا کہ جس کے پاس اہم وزارت ہو اور جو دن رات سیاست اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی مصروف ہو اور جس کی اصل توجہ کا مرکز سوشل میڈیا ہو۔چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا اور ہے کہ جس کی کورونا سے متعلق پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوئی پالیسی نہیں۔ سی این این کے فرید ذکریا نے کورونا کے دس سبق کے نام سے جو کتاب لکھی ہے ، اس میں انہوں نے ایک سبق یہ بیان کیا ہے کہ سیاستدانوں کو طبی ماہرین کو سننا چاہئے ۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ این سی او سی کا سربراہ کسی طبی شعبے کے ماہر کو بنایا جاتا لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر این سی او سی میں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں کو نمائندگی ملنی چاہئے تھی اور ان کی رائے کو اہمیت دینی چاہئے تھی لیکن این سی او سی یا حکومت نے اس معاملے میں بھی ڈاکٹروں کی بات نہیں مانی۔ ڈاکٹرز لاک ڈائون کا کہتے رہے لیکن حکومت اسمارٹ لاک ڈائون کے ڈرامے کرتی رہی۔تازہ ترین لہر کی مثال لے لیجئے ۔ دسمبر کے آخر میں یہ کیسز آنے شروع ہوئے۔ جنوری کے
مہینے میں مجھے اسلام آباد کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے ہاں مریض پھر بڑھنے لگے۔یہ وہ وقت تھا کہ جب برطانیہ میں تیسری اور خطرناک لہر کی وجہ سے لاک ڈائون ہو گیا اور صاحب حیثیت پاکستانی یہاں آنے لگے۔ برطانیہ سے آنے والوں کی ہوائی اڈوں پر ٹیسٹنگ تو دور
کی بات اپنے گزشتہ کالم میں علی معین نواز ش نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح برازیل سے آنے والے ایک پاکستانی ائیرپورٹ پر اپنے کورونا ٹیسٹ کا مطالبہ کرتے رہے لیکن وہاں پر موجود حکام نے انہیں بغیر ٹیسٹ اور قرنطینہ کے گھر جانے کا کہہ کر رخصت کر دیا ۔
دوسری طرف وزیر اعظم ہوں، وزرا ہوں، وزرائے اعلی ہو، گورنرز ہوں یا خود ٹائیگر فورس کے سربراہ، سب بغیر ماسک کے، سماجی فاصلے کے اصول کا مذاق اڑاتے نظر آتے رہے لیکن این سی او سی تماشہ دیکھتی رہی۔ اگر آرمی چیف مسلسل ماسک پہن سکتے ہیں تو وزیراعظم اور وزرا
جو قوم کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں، نے یہ تکلیف گوارا کیوں نہیں کی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں یہ دعوی جھوٹ ہے کہ وہ کم متاثر ہوا۔اس وقت عالمی انڈیکس میں کیسز اور اموات کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر تیس ہے لیکن باقی ممالک کا ڈیٹا مستند ہے اور وہاں مناسب ٹیسٹنگ
ہوئی ہے جبکہ ہمارے ملک میں دس فی صد لوگ بھی ٹیسٹ نہیں کراتے۔ یوں ہمارے ملک میں متاثرین کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو این سی او سی بتارہا ہے اور اسی طرح کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہے۔