اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار سلیم صافی روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ”پاکستان ائیر فورس۔۔۔ ایک جائزہ” میں لکھتے ہیں کہ وہ فضائوں کے محافظ ہیں، ان کی زندگی کا بیشتر حصہ فضائوں میں گزرا اور دن رات فضائوں اور ان کی بلندیوں کے بارے میں سوچنا ان کا کام ہے لیکن اعزاز ان کا یہ ہے کہ انسانوں سے ملتے ہوئے
ان کی نظریں زمین پر رہتی ہیں۔ تکبر کے بجائے عجز و انکسار کو انہوں نے اپنی شخصیت کا خاصا بنا رکھا ہے، شاید اس لئے اللہ نے پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان، جو مارچ میں سبکدوش ہونے جا رہے ہیں، کو یہ اعزاز بخشا کہ ان کی قیادت میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے انڈین حکومت اور انڈین فضائیہ کو رسوا کرکے پاکستانیوں کے سرفخر سے بلند کردیے۔پلوامہ کے واقعے کے بعد انڈین طیاروں نے رات کی تاریکی میں پاکستانی حدود میں گھس کر یوں تو درختوں کو نشانہ بنایا تھا لیکن اس سے ہر پاکستانی کو اسی طرح کی بے بسی اور بے عزتی کا احساس ہونے لگا تھا جس طرح ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد ہوا تھا لیکن صرف دو دن کے وقفے کے بعد پاکستانی شاہینوں نے جس طرح انڈیا کوہزیمت سے دوچار کیا اور درختوں کے جواب میں جس طرح اس کے جہازوں کو نشانہ بنایا، اس نے پاکستانیوں کو جذباتی لحاظ سے ایک نئی زندگی بخش دی۔پاکستانی شاہینوں نے جس طرح انڈیا کے اہم فوجی
مراکز کے نشانے لے کر وڈیوز بنائیں مگر فائر نہیں کیا، وہ پیغام تھا کہ ہم بہادر اور تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار فورس بھی ہیں۔اندر گھس کر نشانہ بنا کر واپس بھاگ آنے سے یہ عمل کئی گنا زیادہ رِسکی تھا جو پاکستانی شاہینوں نے کیا۔ جواب میں جب انڈین جہازوں نے
ان کے تعاقب میں پاکستان کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو ان کے دو جہازوں کو ایسے عالم میں مارا گیا کہ ایک کا پائلٹ ابھینندن پاکستانی حدود میں زندہ گرفتار ہوا۔ انڈین طیاروں نے جب پاکستان کے خلاف کارروائی کی تھی تو اس میں اور پاکستانی ائیر فورس کی کارروائی میں
زمین آسمان کا فرق تھا۔تب تنائو ضرور تھا لیکن جنگی فضا نہیں بنی تھی جبکہ پاکستانی شاہینوں نے اس وقت کارروائی کی جب دونوں طرف جنگی فضا بن گئی تھی۔ بری، فضائی اور بحری افواج الرٹ تھیں اور جس وقت پاکستانی طیارے کارروائی کررہے تھے تو اس وقت پاکستانی سرحد
پر درجنوں انڈین جہاز گشت کررہے تھے۔یوں اپنے سے کئی گنا بڑے اور چوکنا دشمن کے خلاف اس طرح کی کارروائی کرنا، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق، والا معاملہ تھا لیکن یہ ائیرفورس کی قیادت کا کمال تھا کہ اس کی اس طرح منصوبہ بندی کی کہ ہمارے جہازوں اور شاہینوں
کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچا لیکن انڈیا کے نہ صرف دو جہاز گرا دیے گئے بلکہ جنونی نریندر مودی کے غرور اور تکبر کو بھی خاک میں ملا دیا۔یہ کارنامہ سرانجام دینے والے ونگ کمانڈر نعمان علی خان (ستارہ جرات) اور اسکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی (تمغہ جرات) تو پاکستانی
ہیرو ہیں ہی لیکن جن (ائیر چیف مارشل مجاہد انوار خان) کی قیادت اور رہنمائی میں انہوں نے مشکل ترین وقت میں جس طرح پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کئے، اس پر مجاہد انور خان بھی زندگی بھر سینہ چوڑا کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ان کی آئندہ نسلیں بھی بجا طور پر سر اٹھا کر قوم
کے سامنے اس کارنامے کا ذکر کرتی رہیں گی۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ انڈیا کو جواب دینے کا فیصلہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں نیول چیف اور ائیر چیف کا مشترکہ تھا لیکن جواب کب اور کس طریقے سے دیا جائے، یہ حکمت عملی صرف اور صرف فضائیہ کے سربراہ نے
ترتیب دینی تھی اور دو دن کے اندر اندر یہ کارروائی کرکے انہوں نے باقی ملکی قیادت کو بھی حیران کردیا کیونکہ عام خیال یہ تھا کہ وہ کئی ہفتوں میں ہی جوابی اقدام کر سکیں گے جو انہوں نے دو دن کے اندر کر دکھایا۔یوں اس شاندار منصوبہ بندی کا سہرا پاک فضائیہ کی قیادت کے سر ہے۔
اگرچہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج تربیت، بہادری اور ڈسپلن کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں لیکن پاک فضائیہ کا کردار جس قدر کلیدی ہے، اس قدر اس کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ مارشل لا لگا کر اور سیاست میں مداخلت کرکے بری افواج کو اس کے بعض مہم جو سربراہوں نے متنازعہ بھی بنایا لیکن
ائیر فورس یا نیوی کی قیادت کے دامنوں پر اس طرح کے داغ بھی نہیں ہیں۔تجزیہ کرتے وقت لوگ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ انڈیا کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ ائیرفورس کی طرف آجائیں تو بجٹ کا یہ تفاوت اور بھی بڑھ جاتا ہے۔انڈین معیشت جس تیز رفتاری کے
ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور پاکستانی جی ڈی پی گروتھ جس تیز رفتاری سے نیچے آگرا ہے، اس کی وجہ سے یہ تفاوت مزید بڑھ گیا ہے۔ انڈین ائیرفورس کو پہلے روسی، اسرائیلی اور یورپی بلاکس کی ٹیکنالوجی میسر تھی اور اب اس پر امریکی مہربانیاں عروج پر ہیں جبکہ دوسری طرف
پاکستانی ائیرفورس کے پاس نہ صرف نئی ٹیکنالوجی کے لئے پیسے کی کمی ہے بلکہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی تنہائی کی وجہ سے بعض اوقات خریداری کے لئے رقم ہونے کے باوجود پاکستان ائیرفورس عالمی طاقتوں سے وہ ٹیکنالوجی حاصل نہیں کر سکتی جو انڈین ائیرفورس حاصل
کرتی ہے۔یوں پاکستان ائیرفورس کو زیادہ تر چین پر انحصار کرنا پڑتا ہے، ریورس انجینئرنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے یا داخلی طور پر ٹیکنالوجی متعارف کرنی پڑتی ہے۔گزشتہ روز تین گھنٹے پر محیط ملاقات میں جب ائیر چیف مجاہد انور خان نے بعض تفصیلات بتا کر آگاہ کیا کہ
نہ صرف ہر میدان میں انڈین ٹیکنالوجی کا مقابلہ کیا جارہا ہے بلکہ کئی حوالوں سے پاکستانی ائیرفورس، انڈین ائیرفورس سے سبقت بھی لے گئی ہے تو یقین نہیں آرہا تھا۔اس تناظر میں ائیر فورس کی موجودہ قیادت نے یہ بہتر حکمت عملی بھی اپنالی ہے کہ وہ کئی سویلین پی ایچ ڈیز، انجینئرز اور
دیگر ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر چکی ہے جبکہ دوسری طرف کیڈٹ کالجز اور اسپتالوں کی تعمیر کے ذریعے پاکستانیوں کی ویلفیئر کے لئے بھی وسائل فراہم کررہی ہے۔ پاکستان ائیرفورس کا ایک اور اقدام جس نے بہت متاثر کیا، وہ کورونا سے متعلق اس کے حفاظتی اقدامات تھے۔
بدقسمتی سے پاکستان آنے سے تو ہم اسے نہ روک سکے لیکن اس عرصے میں اپنے قیمتی عملے (ماہرین، انجینئرز، ٹیکنیشنز اور پائلٹس) وغیرہ کو اس ایک سال کے دوران باہر کے اختلاط سے بچا کے رکھا۔ ان میں سے بعض پورے سال تک اپنے اہلِ خانہ کے پاس نہ جا سکے۔
ہم پاکستان میں تبدیلی تبدیلی کا ورد تو کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران اصل تبدیلی دفاع کے میدانوں میں آئی ہے۔ ایک تو اصل جنگیں اب معیشت کے میدان میں ہوتی ہیں اور جو قوم یہ جنگ ہار جائے، اس کی فوجیں جیسی بھی ہوں، وہ اپنے دفاع کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔
پھر روایتی جنگوں میں بری افواج کی بجائے دن بدن نیوی اور بالخصوص فضائیہ اور اسپیس یا خلا کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت امریکہ اگر دنیا کا بدمعاش بنا ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجہ اس کی فضائیہ، ٹیکنالوجی (ڈرون اور اسٹیلتھ ٹیکنالوجی وغیرہ) اور خلائی میدان میں برتری ہے۔ جنگوں کی اس تبدیل ہوتی صورت حال کے تناظر میں ہمیں پاک فضائیہ کو خصوصی اہمیت اور توجہ دینا ہوگی۔