اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

یہ کوئی اور ہے

datetime 13  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

وہ ایک مکمل نارمل نوجوان تھا‘ ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں رہتا تھا‘ فوڈ سائنس لیبارٹری میں کیمسٹ تھا‘کیریئر کا آغاز سویپر سے کیا تھا‘ باتھ روم صاف کرتا تھا‘ جسم توانا تھا‘ باڈی بلڈنگ کرتا تھا چناں چہ نائیٹ کلب میں بائونسر بھرتی ہو گیا‘ فوڈ سائنس لیبارٹری میں کام پیشہ وارانہ زندگی کی پیک تھا‘ وہ اب شادی کر کے سیٹل لائف گزارنا چاہتا تھا‘ لڑکی بھی پسند آ گئی‘ وہ ڈیٹ کرنے لگے

اورڈیٹ کے دوران دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا‘ نوجوان نے ایک شام اپنی گرل فرینڈ کو ڈنر کی دعوت دی‘ منگنی کے لیے انگوٹھی خریدی‘ خوب صورت سوٹ پہنا‘گل دستہ خریدا اوروہ ریستوران کی طرف چل پڑا‘ بیونس آئرس کی پتلی گلیوں میں چلتے چلتے راستے میں چھوٹا سا چرچ آ گیا‘ وہ اس کے قریب سے گزر رہا تھا‘ اچانک اس نے اندر سے پیانو کی آواز سنی‘اس کے قدم مڑ گئے اور وہ بے اختیار چرچ کے اندر داخل ہو گیا‘ قربان گاہ پر سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک پادری پیانو بجا رہا تھا‘ پادری نے نوجوان کو دیکھا‘ پیانو بجانا بند کیا‘ جھک کر اس کا استقبال کیا‘ کنفیشن باکس کے پاس پہنچا اور چپ چاپ جالی کی دوسری طرف بیٹھ گیا‘ نوجوان ہاتھ میں گل دستہ پکڑ کر حیرت سے یہ ساری کارروائی دیکھتا رہا‘ پادری نے جالی کے پیچھے سے آواز لگائی ’’نوجوان بولو‘ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں‘‘ نوجوان نے جواب دیا ’’مجھے کوئی ایشو نہیں‘ میں کسی گناہ کے اعتراف کے لیے یہاں نہیں آیا‘ میں یہاںسے گزر رہا تھا‘ پیانو کی آواز سنی اور اندر آ گیا‘‘ پادری نے ہنس کر جواب دیا ’’میں جانتا ہوں تم میرے لیے یہاں نہیں آئے لیکن میں تمہارے لیے آیا ہوں‘‘ وہ حیرت سے پادری کی بات سنتا رہا‘ پادری بولا ’’میں اس چرچ کا پادری نہیں ہوں‘ میں کینسر کا مریض ہوں‘ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکوں گا‘ مجھے کل رات خواب میں بشارت ہوئی تم فلاں چرچ جائو‘ اعتراف کے باکس میں بیٹھو اور گناہ گاروں کی شرمندہ داستانیں سنو‘ میں یہاں آ گیا‘ سارا دن گزر گیا مگر کوئی شخص چرچ نہیں آیا‘ میں نے

بور ہو کر پیانو بجانا شروع کر دیا اور تم آ گئے‘ میرا خیال ہے میں یہاں صرف تمہارے لیے بھجوایا گیا ہوں لہٰذا پلیز بات کرو‘‘ نوجوان کی حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ چرچ میں دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا‘ اندر اندھیراتھا‘ آبنوسی لکڑی کی خوشبو تھی اور اس خوشبو میں نوجوان جارج ماریو برگوگلیو بیٹھا تھا‘ نوجوان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’فادر زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘ پادری نے جواب دیا ’’اللہ کی

نعمتوں کا اعتراف‘‘ اس نے پوچھا’’ اوراگر اعتراف کے بعد بھی زندگی بچ جائے توانسان پھر کیا کرے‘‘ پادری نے جواب دیا ’’یہ پھر دوسرے لوگوں کو اللہ کی نعمتوں کے بارے میں اطلاع دے‘‘ نوجوان نے لمبی سانس لی‘ چرچ سے باہر آیااور باقی زندگی چرچ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔پیانو کی ایک دھن نے نوجوان کی ساری زندگی کا پیٹرن بدل دیا‘ وہ کیمسٹ کے پیشے سے نکل کر مذہبی

سکول میں داخل ہو گیا‘ ارجنٹائن میں سوسائٹی آف جیسزکے نام سے پادریوں کا ایک ادارہ ہے‘ وہ اس کا حصہ بن گیا‘ مذہبی تعلیم حاصل کی‘1969ء میں پادری بنا‘ 1973ء میں صوبائی سطح کا پادری بنا اور 1998ء میں اسے ارجنٹائن کا آرچ بشپ بنا دیا گیا‘ وہ پورے ملک میں مشہور ہو گیا‘ اس دوران ارجنٹائن میں مارشل لاء بھی لگا‘ سول رائیٹس معطل بھی ہوئے اور تیس ہزار لوگ قتل بھی کر دیے گئے‘

اس پر مارشل لاء اور آمریت کی سپورٹ اور اپنے دو انقلابی دوستوں کے خلاف مخبری کا الزام بھی لگا لیکن یہ قدم بہ قدم آگے بڑھتا چلا گیا‘ پوپ جان پال دوم نے2001ء میں دس نئے کارڈینل بنائے‘ یہ بھی دنیا کے ان دس خوش نصیب ترین پادریوں میں شامل تھا‘ کارڈینل کا عہدہ پوپ سے نیچے مقدس ترین سٹیٹس ہوتا ہے‘ پوپ کا فیصلہ کارڈینلز کرتے ہیں‘ یہ تاحیات ہوتے ہیں اور پوپ ان کے انتقال کے بعد

ان کی جگہ نیا کارڈینل مقرر کرتا ہے‘ یہ اس کے مذہبی کیریئر کی پیک تھی‘ یہ فٹ بال اور ٹینگو ڈانس کا دیوانہ تھا‘ فٹ بال کا میچ ہور ہا ہو یا ٹینگو ڈانس ہو رہا ہو تو اس کے قدم جم جاتے تھے‘ یہ اپنی تمام تر ریاضت اور عبادت کے باوجود اپنی یہ دونوں لذتیں ختم نہیں کر سکا‘ یہ بھرپور قہقہہ بھی لگاتا تھا اور یہ ہر قسم کے شخص سے کھلے دل کے ساتھ مل بھی لیتا تھا۔جارج ماریو برگوگلیو کی

زندگی میں 2013ء میںنیا موڑ آ گیا‘ یہ 77سال کا بوڑھا ہو چکا تھا اور یہ کارڈینل کی زندگی ترک کر کے باقی عمر عام انسان کی طرح گزارنا چاہتا تھا‘ اس کی خواہش تھی یہ ٹینگو ڈانس کرے‘ سٹیڈیم میں بیٹھ کر فٹ بال کے میچ دیکھے‘ گلیوں میں چلتے پھرتے کھانا کھائے اور اپنے گھر کے صحن میں پودوں کی گوڈی کرے لہٰذا اس نے پوپ کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا‘ بینی ڈکٹ اس وقت پوپ تھے‘ یہ جرمن نژاد تھے اور دل چسپ عادتوں کے مالک تھے‘ پوپ کو کسی کارڈینل کی طرف سے پہلا استعفیٰ موصول ہوا تھا‘

وہ حیران رہ گئے‘ پوری عیسائی دنیا میں ہر پادری کارڈینل بننا چاہتا ہے‘ لوگوں کی نسلیں یہ خواب دیکھتے دیکھتے گل جاتی ہیں جب کہ جارج اپنا عہدہ چھوڑ کر عام آدمی کی زندگی گزارنا چاہتا تھا‘ یہ اچنبھے کی بات تھی چناں چہ پوپ نے کارڈینل کو ویٹی کن میں طلب کر لیا‘ یہ روم پہنچا‘ اسے پوپ کی گاڑی میں پوپ کے سمر پیلس میں لے جایا گیا‘وہ پیلس میں پہنچ کر لان میں مالی کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا‘

اس کا پرانا گندہ بیگ دیوار پر رکھا تھا اور وہ بڑی یک سوئی کے ساتھ مالی کو مختلف پودوں کی خصلت کے بارے میں بتا رہا تھا‘ پوپ بینی ڈکٹ کھڑکی سے اسے دیکھ رہے تھے‘ پوپ نے کارڈینل کے ساتھ گفتگو کی اور اسے اپنا مہمان بنا لیا‘ کارڈینل نے پوپ کو فٹ بال اور ٹینگو ڈانس کے بارے میں بتایا‘ اس نے روم کی قدیم پیزا شاپ سے پیزا منگوا کرپوپ کو کھلایا اور اسے اپنی زندگی کے مشکل اور

حیران کن پہلوئوں کے بارے میں بتایا‘ پوپ نے اس سے پوچھا ’’تم استعفیٰ کیوں دینا چاہتے ہو‘‘ کارڈینل جارج کا جواب تھا ’’میرے دو ساتھی اور ان کا خاندان یہ سمجھتا تھا میں نے ڈکٹیٹر جارج رافیل کو ان کے بارے میں مخبری کی تھی‘ میں آج جب بھی اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے میں اگر کوشش کرتا تو میں ان کی جان بچا سکتا تھا چناں چہ میں احساس گناہ کا شکار ہو جاتا ہوں‘

دوسرا میں مذہبی انسان نہیں ہوں‘ مجھے صرف ایک اتفاق اس میدان میں لے آیا تھا‘ میں 44برسوں سے پادری کا لبادہ پہن کر یہ کردار ادا کر رہا ہوں‘ میں اب تھک گیا ہوں‘ میں اب عام انسان کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں‘ بیئر پینا چاہتا ہوں‘ ڈانس کرنا چاہتا ہوں‘ کلبوں میں ناچنا گانا چاہتا ہوں‘ فٹ بال کے میچوں کے دوران منہ میں دو انگلیاں پھنسا کر سیٹی مارنا چاہتا ہوں اور عورتوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘

پوپ نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کارڈینل کو یہ بتا کر حیران کر دیا ’’میں بھی پوپ بن بن کر تھک گیا ہوں‘ میرا دماغ سلو ہو چکا ہے‘ میں اب بروقت فیصلے نہیں کر پاتا چناں چہ میں پوپ کا عہدہ چھوڑ کر باقی زندگی اپنے گائوں میں گزارنا چاہتا ہوں‘‘ کارڈینل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’پوپ کا عہدہ تاحیات ہوتا ہے‘ پوپ ریٹائر نہیں ہو سکتا‘‘ پوپ بینی ڈکٹ نے کہا ’’نہیں مجھ سے پہلے گیارہویں صدی عیسوی میں پوپ گریگوری ششم اور پندرہویں صدی میں گریگوری 12 مستعفی ہو چکے ہیں‘

میں عیسائی تاریخ کا مستعفی ہونے والا تیسرا پوپ ہوں گا اور میری جگہ تم پوپ بنو گے‘‘ کارڈینل کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور اس نے پوپ بینی ڈکٹ کی منتیں شروع کر دیں مگر پوپ کا فیصلہ حتمی تھا‘ اب آپ کہانی میں ٹوِسٹ دیکھیے‘وہ گرل فرینڈ کو پروپوز کرنے جا رہا تھا اور راستے میں اس کا راستہ بدل گیا‘ اس نے کارڈینل کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو پوپ نے ریٹائرمنٹ لے کر پوپ کا ہار اس کے گلے میں

ڈالنے کا اعلان کر دیا‘ اس نے بچنے کی لاکھ کوشش کی لیکن ناکام رہاں یہاں تک کہ پوپ بینی ڈکٹ نے ریٹائر ہونے اور کارڈینل جارج کو پوپ نامزد کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ بہرحال قصہ مختصر جارج ماریو برگوگلیو 13 مارچ 2013ء کو266ویں پوپ بن گئے۔یہ عیسائی تاریخ میں امریکی سرزمین سے پہلے پوپ ہیں اور یہ عیسائی تاریخ کے پہلے غیر یورپی پوپ بھی ہیں‘ دنیا میں

اس وقت دو پوپ ہیں‘ پوپ بینی ڈکٹ ریٹائرمنٹ کے باوجود زندہ ہیں اور جارج بر گوگلیو پوپ فرانسیس کے نام سے عیسائی دنیا کی مذہبی قیادت کر رہے ہیں‘ یہ دنیا کے پہلے پوپ ہیں جو فٹ بال میچ بھی دیکھتے ہیں‘ ٹینگو ڈانس بھی جانتے ہیں‘ بازار کا پیزا بھی کھا لیتے ہیں اور یہ عام لوگوں سے بھی مل لیتے ہیں‘ یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے اس دعوے کے تازہ ترین ثبوت بھی ہیں کہ تم نہیں چنتے‘

میں ہوں جو تم میں سے ہر شخص کے راستے کا تعین کرتا ہوں‘ تم کسی بھی طرف نکل جائو‘ تم کہیں بھی بھاگ جائو لیکن تم جائو گے وہیں جہاں میں تمہیں لے جانا چا ہوںگا‘ تمہیں بہرحال یہ حقیقت ماننی ہو گی‘ وہ کوئی اور ہے جو تمہارے فیصلے کرتا ہے اور وہ کون ہے ‘ وہ تمہارا رب ہے‘ وہی خدا ہے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…