شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد ہجرو فراق کی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی نے مرتے دم تک کچھ کھایا اور نہ پیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے وصال کے بعد جو عجیب کیفیات رونما ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جس دراز گوش پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری فرماتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں اتنا مغموم ہوا کہ اس نے ایک کنویں میں چھلانگ لگادی اور اپنی جاں جاں آفریں کے حوالے کر دی۔‘‘(عبدالحق محدث دہلوی، مدارج النبوی، 2 : 2444)اْستنِ حنانہ کاایمان افروز واقعہ:اسلام کے ابتدائی دور میں آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی دیر کھڑے رہنا پڑتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت شاق گزری۔ ایک صحابی جس کا بیٹا بڑھئی تھا، نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنانے کی درخواست کی تاکہ اْس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کو پذیرائی بخشی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
کھجور کے تنے کو چھوڑ کر اس منبر پر خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ اس تنے سے گریہ و زاری کی آوازیں آنے لگیں۔ اْس مجلسِ وعظ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اْس کے رونے کی آواز سنی۔ آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت
دیکھی تو منبر سے اْتر کر اس ستون کے پاس تشریف لے گئے اور اْسے اپنے دستِ شفقت سے تھپکی دی تو وہ بچوں کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا چپ ہو گیا۔ (ابن ماجہ، 1 : 2455،دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 332،طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 367، رقم : 2250)اْس ستون کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اس طرح ہے :
’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کھجور کے تنے کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اْسے چھوڑ کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اْس تنے نے رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اْس کے پاس تشریف لے گئے اور اْس پر
دستِ شفقت رکھا۔‘‘(بخاری، الصحیح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23390ترمذی، الجامع الصحیح، 5 : 594، ابواب المناقب، رقم : 33627ابن حبان، الصحیح، 14 : 435، رقم : 46506)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما تنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں ، ’’کھجور کے تنے نے بچوں کی طرح گریہ و زاری شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر
سے اْتر کر اْس کے قریب کھڑے ہو گئے اور اْسے اپنی آغوش میں لے لیا، اس پر وہ تنا بچوں کی طرح سسکیاں لیتا خاموش ہو گیا۔‘‘(بخاری، الصحیح، 3 : 1314، رقم : 23391)حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھم اْس تنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’
ہم نے اْس تنے کے رونے کی آواز سنی، وہ اْس طرح رویا جس طرح کوئی اْونٹنی اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اْس پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور وہ خاموش ہو گیا۔‘‘(بخاری، الصحیح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23392،ابن سعد، طبقات الکبری، 1 : 5253)صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں :
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ستون کو بانہوں میں لے کر چپ نہ کراتے تو قیامت تک روتا رہتا۔‘‘(ابن ماجہ، السنن، 1 : 454، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ ، رقم : 21415،بن حنبل، المسند، 1 : 3363،عبد بن حمد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336)یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے لمس کا اثر تھا کہ ایک بے جان اور بے زبان لکڑی میں آثارِ حیات نمودار ہوئے جس کا حاضرینِ مجلس نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔