لندن(نیوزڈیسک)امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون کومل احمد نے ایک موبائل فون اپلی کیشن تیار کی ہے، جس کی مدد سے ہزاروں مستحق اور بے گھر افراد کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔پچیس سالہ کومل احمد ایک غیر منافع بخش کمپنی ‘فیڈنگ فارورڈ’ کی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ان کی کمپنی سان فرانسسکو شہر کے فوڈ بینک اور بے گھر افراد کی پناہ گاہوں کے ساتھ مل کر بچے ہوئے کھانے کی تقسیم کا منظم عمل چلا رہی ہے۔کومل احمد نے آن لائن ویب سائٹ ‘فوڈ بییسٹ’ کو بتایا کہ ‘یہ تین سال پہلے کی بات ہےجب میں وہ کیلی فورنیا یونیورسٹی بارکلے میں زیرتعلیم تھیں تو ایک روز یونیورسٹی کے کیمپس کے قریب ایک نوجوان شخص نے مجھے روکا اور مجھ سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تھے۔جس پر بہت اصرار کے بعد میں نے اس شخص کو اپنے ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت دی اور دوران گفتگو انھیں معلوم ہوا کہ یہ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے جو حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے بے گھر ہو گیا ہے۔ اس کی کہانی سن کر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اتنا مجبور ہو سکتا ہے۔ بس اس واقعہ کے بعد میں نے یونیورسٹی میں ایک منصوبے کا آغاز کیا، جس پر مجھے یونیورسٹیی کی طرف سے ڈائننگ ہال سے بچا ہوا کھانا مقامی بے گھر افراد کو عطیہ کرنے کی اجازت مل گئی۔ان کا یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا اور تین سال کے اندر اندر امریکہ بھر کے140 دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس منصوبے کا آغاز کر دیا گیا۔بقول محترمہ احمد بھوک بہت بری چیز ہے یہ ہر جگہ خطرناک ہوتی ہے اور امریکہ جو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے یہاں اس کا وجود نہیں ہونا چاہیئے۔
فیڈنگ فارورڈ اپلی کیشن کس طرح کام کرتی ہے
موبائل اپلی کیشن کا استعمال کرتے ہوئےخوردہ فروش کمپنیاں اور تقریبات کا انتظام کرنے والی تنظیمیں اپنا بچا ہوا کھانا اپنے ہی علاقے کے اندر ضرورت مند افراد کو عطیہ کر سکتی ہیں۔فیڈنگ فارورڈ کمپنی ویب سائٹ اور فون ایپ کے ذریعے اضافی خوراک رکھنے والے کاروباری اداروں اور قریبی علاقوں میں ضرورت مندوں کو تلاش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کمپنی یا کاروباری ادارے کے پاس بچی ہوئی خوراک موجود ہے تو وہ اس فون ایپ پر کلک کر کے یہاں اپنے عطیہ کی تفصیلات درج کرتا ہے، جس کے بعد کمپنی کا ڈرائیور فوری طور پر بچے ہوئے کھانے کو وہاں سے اٹھاتا ہے اور سب سے ز یادہ ضرورت مند ادارے کے سپرد کرتا ہے۔فیڈنگ فارورڈ اب تک سان فرانسسکو کے پسماندہ آبادی کی خدمت انجام دے رہی ہے لیکن محترمہ احمد بہت جلد اس تنظیم کو سییا ٹل اور بوسٹن تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہیں اور آخر کار عالمی سطح پر بھی اس کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہتی ہیں۔کومل احمد کے مطابق جیسےجیسے فیڈنگ فارورڈ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے بڑی تعداد میں لوگ رضاکارانہ طور پر تنظیم کی مدد کے لیے آگے بڑھے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ‘یہ امریکہ کے بہت بڑے شہر ہیں جہاں ہر روز بڑے پیمانے پر خوراک کو ضایع کر دیا جاتا ہے ہم یہاں اپنے علاقے کو ایک مثال بنانا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر یہ نظام یہاں کام کر سکتا ہے تو دنیا کے کسی بھی حصے میں کام کر سکتا ہے’۔
عالمی سطح پر خوراک کا ضیاع
رواں برس اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچے ہوئے کھانے کے ساتھ مسائل صرف ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ مسئلہ افریقی ممالک مثلاً جنوبی افریقہ میں بھی موجود ہے۔رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں خوردہ فروشوں اور صارفین کی طرف سے ضایع خوراک 870ملین بھوکے افرادکو کھانا کھلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہے جبکہ صرف امریکہ میں ہر سال 60 ملین میٹرک ٹن خوارک برباد کر دی جاتی ہے، جس کی اندازاً قیمت 162 ارب ڈالر ہے۔بتایا گیا ہے کہ یہ مسئلہ آبادی میں اضافے کے ساتھ مزید بدتر ہو سکتا ہے اور 2030ء تک جب عالمی سطح پر متوسط طبقے کی آبادی میں اضافہ ہو گا تو صارفین کے بچے ہوئے کھانوں کی لاگت اندازاً 600 ارب ڈالر تک جا پہنچ سکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کا فضلہ نا صرف سماجی مسئلہ ہے بلکہ اقتصادی اور سنگین ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے
غریبوں تک خوراک کی فراہمی کے لیے موبائل ’اپلی کیشن‘
30
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں