تہران۔۔۔۔ایران اور مغربی ممالک کے مابین ایران کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق دی گئی مہلت کے اندر اندر کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے حوالے سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔آسٹریا کے شہر ویانا میں ایران کے جوہری پرگرام کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے اور اس حوالے سے کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے پیر تک کی مہلت ہے۔امریکہ اور جرمنی دونوں نے کہا ہے کہ طرفین ان کے درمیان موجود ’بڑی خلیج‘ کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور بغص ایسے مشورے سامنے آئے ہیں کہ معاہدے کے لیے وقت مہلت بڑھا دی جائے۔ویانا میں جاری بات چیت میں ایران کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین، جرمنی اور یورپی یونین شریک ہیں۔اس بات چیت کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے متعلق عارضی معاہدے کو مستقل شکل دینا ہے۔گفتگو میں شامل ممالک ایران سے اس بات کا مظاہرہ چاہتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ جوہری اسلحہ نہیں بنا رہا ہے جبکہ ایران کہتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر توانائی سے متعلق ہے۔بات چیت میں شامل ممالک ایران سے اس بات کا مظاہرہ چاہتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ جوہری اسلحہ نہیں بنا رہا
امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے سنیچر کو کہا کہ ’ہم بہت محنت کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم احتیاط سے پیش رفت کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہمارے درمیان بڑی خلیج موجود ہے جسے ہم کم کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘جان کیری نے یہ باتین ایران کے وزیرِ خارجہ جاوید ظریف سے ملاقات کی خاطر اپنا دورہ پیرس منسوخ کرنے کے کہی۔گذشتہ تین دنوں میں یہ جان کیری کی جاوید ظریف سے چوتھی ملاقات ہے۔جرمن وزیرِ خارجہ فرینک والٹر شٹائن مائر نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اب تک ہونے والی بات چیت کو ’تعمیری‘ قرار دیا لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہمیں اس حقیقت کو بھی نہیں چھپانا چاہیے کہ ہمارے درمیان بہت سے پہلوؤں پر بڑی خلیج ہے۔‘ویانا میں بی بی سی کی نامہ نگار بتھانی بیل کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اگر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے اس سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ طرفین مشکل سیاسی فیصلے کر سکیں گے اور بعض مبصرین کے مطابق کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے شاید مزید وقت درکار ہو۔
یورپیئن ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بات چیت میں ’کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی اور کوئی ہیں۔‘ویانا میں بی بی سی کی نامہ نگار بتھانی بیل کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اگر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے اس سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں بڑی تبدیلی آ جائے گی۔اے ایف پی نے ایک سینیئر امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ مقصد اب بھی پیر کی رات تک معاہدہ کرنا ہے ’لیکن ہم آپس میں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مختلف آپشنز یا راستوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔‘دوسری جانب جوہری پروگرامز پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران اپنی مشتبہ فوجی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات دو کرے جو کہ اس کے جوہری پروگرام سے منسلک ہو سکتی ہیں۔
ایران نے آئی اے ای اے سے کہا تھا کہ وہ اگست تک اس بارے میں تفصیلات فراہم کرے گا تاہم اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ معائنیہ کاروں کو ایک اہم فوجی اڈے پارچن میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔
ایران اور مغربی ممالک کے مابین معاہدہ کے امکانات کم ہو گئے
23
نومبر 2014
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں