اسلام آباد (این این آئی) صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی اور ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے درمیان رمضان المبارک میں مساجد میں عبادات کیلئے 20 نکات پر اتفاق ہو گیا جس کے مطابق مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائیگی، نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔
نماز تراویح کیلئے مساجد اور امام بارگاہوں میں سحری و افطاری نہیں ہوگی، مسجد کے احاطہ کے اندر نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے،جماعت میں نمازیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ہوگا، مساجد کے صحن میں نماز ہوگی اور سڑکوں پر نماز کی ادائیگی نہیں ہوسکے گی ،اگر احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو ا یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کریگی جبکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ جب تمام مکاتب فکر کے درمیان اتفاق ہوجائے تو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے،بچے اور پچاس سال کے لوگ مساجد آنے سے گریز کریں،مسجد اور انتظامیہ کے افراد پر کمیٹی اقدامات کو یقینی بنائے جائے گی، شدید متاثرہ مخصوص علاقوں میں شرائط سخت کرنے کا حکومت کو اختیار ہو ہوگا ، جہاں کورونا کی شدت زیادہ یا کم ہوگی وہاں حالات کے تحت نرمی یا سختی کی جائیگی۔ہفتہ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں علماء سے مشاورتی اجلاس ہوا جس میں تمام صوبوں سے علماء نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی ۔کانفرنس میں وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری ، وزیر داخلہ اعجاز شاہ ،چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، صوبائی گورنرز ،پیر امین الحسنات، علامہ راجا ناصر عباس، پیر چراغ الدین شاہ، علامہ عارف واحدی ،مفتی گلزار نعیمی، علامہ امین شہیدی، ڈاکٹر ساجد الرحمن، پیر نقیب الرحمن و دیگر شریک ہوئے ۔
اجلاس کے دور ان پاکستان علماء کونسل کی جانب سے صدر مملکت کی زیر صدارت اجلاس میں تجاویز پیش کی گئیں جس کے حوالے سے حافظ طاہر اشرفی نے بتایاکہ مساجد بند نہیں ہونا چاہیں نہ نماز باجماعت، اذان کا سلسلہ ختم ہو، مساجد میں وزارت صحت کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔حافظ طاہر اشرفی نے کہاکہ مکمل ترتیب مسجد انتظامیہ اور مقامی انتطامیہ کرے، مقامی انتظامیہ اور پولیس کی مشاورت سے مسجد کے رقبہ کے مطابق نمازیوں کی تعداد طے ہو، تجویز پیش کی گئی کہ جو اجلاس میں اتفاق رائے ہو اس پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے۔
تعداد سے زیادہ عوام الناس کو روکنے لے لیے پولیس اور مسجد انتطامیہ کے درمیان تعاون ہونا چا ہیے ، یہ بھی تجویز پیش کی گئی کہ علماء، آئمہ، موذن عوام الناس کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتے، معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوں، وبائی علاقوں مساجد کے اندر موجود عملہ اذان و باجماعت نماز کرائے، نمازی حضرات گھروں سے وضو، سنتوں کی ادائیگی اور نماز کے فوری بعد گھر جانے کی پابندی کریں۔تجویز پیش کی گئی کہ کوشش کی جائے کہ نماز کی ادائیگی کھلی جگہ پر ہو، صوبائی و وفاقی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ کو مقامی مساجد کی انتظامیہ سے فوری مشاورت کا پابند کریں۔ تجویز پیش کی گئی کہ اعتکاف بھی مساجد میں ہو مگر احتیاطی تدابیر اور فاصلہ کے مطابق ہو ۔
حافظ طاہر اشرفی کے مطابق اجلاس میں تمام تجاویز کی منظور دی گئی ۔کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنی تجاویز سے آگاھی دی ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ یہ ملکی تاریخ اور تقدیر کے اعتبار سے بڑا اہم موقع ہے،ایک وبا ساری دنیا میں پھیل رہی ہے،اس دوران احتیاطی تدابیر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ بھی اہم ہے رمضان المبارک کے دوران ان حالات میں مساجد میں کیا کیفیت اختیار کی جائے،رمضان المبارک میں تراویح کے سلسلے میں پالیسی بنالی جائے اور اس پر اتفاق رائے ضروری ہے،ہمارے مدارس اور مساجد زکوآخیرات پر چلتی ہیں، اس کا اہتمام مسلمان جاری رکھیں۔
انہوں نے کہاکہ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط کا اظہا مساجد سے ہونا چاہیے، اس پیغام میں بتایا جائے کہ رمضان کس طرح سے گذارا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قوم منتظر ہے کہ حکومت اور آئمہ مل کر آگے بڑھیں۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور وبا سے نجات مانگتے ہیں، رمضان المبارک میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے احتیاطی تدابیر ضروری ہیں اور اجلاس کا مقصد رمضان المبارک کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اتفاق رائے کا امکان تب ہے جب حکومت حالات کے بارے میں بتائے اور اس کے بعد علما تجاویز دیں،کورونا وائرس کے اعتبار سے حالات کہیں بدلیں گے تو کہیں سخت ہونگے۔
انہوں نے کہاکہ مسلمان ایک چیز کی نیت کرلے تو اسے کسی پولیس کی ضرورت نہیں۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز سیاسی لیڈران سے مشورہ کیا تھا،وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے صوبائی حکومتوں سے جو تجاویز مانگی تھیں ان کو یکجا کردیا گیا ہے،۔انہوں نے کہاکہ وفاقی دارالحکومت سمیت تمام صوبوں میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک علماء کا مشکور ہوں۔انہوںنے کہاکہ یہ انتہائی اہم موقع ہے، اس وقت ملک کی موجودہ کورونا کی صورتحال سے سب آگاہ ہیں۔انہوںنے کہاکہ رمضان المبارک کے موقع پر موجودہ حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے کیا کیفیت اختیار کی جائے ۔
انہوں نے کہاکہ ہرسال رمضان المبارک میں بڑا اہتمام کیا جاتا رہا ہے البتہ موجودہ صورت حال میں ایک پالیسی بنائی جانی ضروری ہے ،موجودہ صورت حال میں قوم میں اتفاق رائے انتہائی ضروری ہے،اگر تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے علماء کرام اپنی رائے دیں تو وہ بہت زیادہ ضروری ہے ،قومیں نظم و ضبط سے وجود میں آتی ہیں، امید کرتا ہوں علماء حضور اکرم کی اسوہ حسنہ کو مثال بناکر موجودہ صورت حال میں رہنمائی کرینگے ۔ انہوںنے کہاکہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے آنے والی رائے کے ساتھ علماء کی رائے بہت ضروری ہے، روزانہ کی بنیاد پر کورونا بارے عوام کو آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔ب
عد ازاں اجلاس میں علماء کے ساتھ بیس نکات پر اتفاق کیا گیا جس کے مطابق مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائیگی، اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے،جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔معاہدے کے مطابق نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے، جن مساجد اور امام بارگاہوں میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے، 50سال سے زیادہ عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔
معاہدے کے مطابق مسجد کے احاطہ کے اندر نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے،سڑک اورفٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے، مسجد اور امام بارگاہ کے فرش کو صاف کرنے کے لئے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے، اسی محلول کو استعمال کر کے چٹائی کے اوپر نماز سے پہلے چھڑکاؤ بھی کر لیا جائے۔ نکات کے مطابق مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے۔ ایک نقشہ منسلک ہے جو اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہے، مساجد اور امام بارگاہ انتظامیہ ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائے جو احتیاطی تدابیر پرعمل یقینی بنا سکے۔
مسجد اور امام بارگاہ کے منتظمین اگر فرش پر نمازیوں کے کھڑے ہونے کے لئے صحیح فاصلوں کے مطابق نشان لگا دیں تو نمازیوں کی اقامت میں آسانی ہو گی۔نکات کے مطابق وضو گھر سے کر کے مسجد اور امام بارگاہ تشریف لائیں۔ صابن سے بیس سیکنڈ ہاتھ دھو کر آئیں، لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں اورکسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔نکات کے مطابق اپنے چہرے کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں، گھر واپسی پر ہاتھ دھو کر یہ کر سکتے ہیں۔
موجودہ صور ت حال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے، نکات کے مطابق مسجد اور امام بارگاہ میں افطار اورسحر کا اجتمائی انتظام نہ کیا جائے۔ نکات کے مطابق مساجد اور امام بارگاہ انتظامیہ، آئمہ اور خطیب ضلعی وصوبائی حکومتوں اور پولیس سے رابطہ اور تعاون رکھیں ، مساجد اور امام بارگاہوں کی انتظامیہ کو ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشروط اجازت دی جا رہی ہے۔نکات کے مطابق اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی۔
اس بات کا بھی حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقہ کے لیے احکامات اور پالیسی بدل دی جائے گی۔معاہدے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صدر عارف علوی نے بتایاکہ کانفرنس میں بیس نکات پر اتفاق کرلیا گیا، جب تمام مکاتب فکر کے درمیان اتفاق ہوجائے تو اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایاکہ مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین اور دریاں نہیں بچھائی جائیں گی اور صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ بچے اور پچاس سال کے لوگ مساجد آنے سے گریز کریں۔ انہوںنے کہاکہ مسجد کے احاطے کے اندر نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے،سڑک پر نماز تراویح سے پرہیز کیا جائے۔
مسجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نمازوں میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ مسجد اور انتظامیہ کے افراد پر کمیٹی اقدامات کو یقینی بنائے جائے گی،انہوں نے کہاکہ مساجد کے منتظمین فرش پر نشان لگائیں گے،گھر سے وضو کرکے مساجد آئیں،ماسک پہن کر نماز کیلئے مسجد آئیں۔ صدرمملکت نے فیصلے کے بارے میں بتایاکہ مساجد میں سحر و افطار کا انتظام نہ کیا جائے ،مساجد اور امام بارگاہ کے منتظمین پولیس سے رابطہ رکھیں گے، انہوں نے کہاکہ مساجد اور امام بارگاہوں کو ان شرائط کے ساتھ نماز کی اجازت ہوگی۔ صدر مملکت نے کہاکہ اگر رمضان کے دوران حکومت محسوس کرے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہا یا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو حکومت فیصلے پر نظر ثانی کرے گی،حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقے میں شرائط مزید سخت ہوسکتی ہیں۔ صدر مملکت نے کہاکہ گھر سے مساجد آنے والے اپنی جائےنماز لاسکتے ہیں ۔